اس رکوع کو چھاپیں

سورة القصص حاشیہ نمبر١۰۹

یہ بات محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے ثبوت میں پیش کی جا رہی ہے ۔ جس طرح موسیٰ علیہ السلام بالکل بے خبر تھے کہ انہیں نبی بنا یا جانے والا ہے اور ایک عظیم الشان مشن پر وہ مامور کیے جانے والے ہیں ،اُن کے حاشیہ، خیال میں  بھی اِس کا ارادہ یا خواہش تو درکنار اس کی توقع تک کبھی نہ گزری تھی، بس یکایک راہ چلتے انہیں کھینچ بلایا گیا اور نبی بنا کر وہ حیرت انگیز کام ان سے لیا گیا جو ان کی سابق زندگی سے کوئی مناسبت نہیں رکھتا تھا، ٹھیک ایسا ہی معاملہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بھی پیش آیا۔ مکہ کے لوگ خود جانتے تھے کہ غارِ حرا سے جس روز آپ نبوت کا پیغام لے کر اترے اُس سے  ایک دن پہلے تک آپ کی زندگی کیا تھی، آپ کے مشاغل کیا تھے، آپ کی بات چیت کیا تھی۔ آپ کی گفتگو کے موضوعات کیا تھے، آپ کی دلچسپیاں اور سر گرمیاں کس نوعیت کی تھیں۔ یہ پوری زندگی صداقت، دیانت، امانت اور پاکبازی سے لبریز ضرور تھی۔ اس میں انتہائی شرافت، امن پسندی، پاسِ عہد، ادائے حقوق اور خدمتِ خلق کا رنگ بھی غیر معمولی شان کے  ساتھ نمایا ں تھا۔ مگر اس میں کوئی چیز ایسی موجود نہ تھی جس کی بنا پر کسی کے وہم و  گمان میں بھی یہ خیال گزر سکتا ہو کہ یہ نیک بند ہ کل نبوت کا دعویٰ لے کر اُٹھنے والا ہے۔ آپ سے قریب ترین ربط ضبط رکھنے والوں میں ، آپ کے رشتہ داروں اور ہمسایوں اور دوستوں میں کوئی شخص یہ نہ کہہ سکتا تھا کہ آپ پہلے سے نبی بننے کی تیاری کر رہے تھے۔ کسی نے اُن مضامین اور مسائل اور موضوعات کے متعلق کبھی  ایک لفظ تک آپ کی زبان سے نہ سنا تھا جو غارِ حرا ء کی اُس انقلابی ساعت کے بعد یکایک آپ کی زبان پر جاری ہونے شروع ہو گئے۔ کسی نے آپ کو وہ مخصوص زبان اور وہ الفاظ اور اصطلاحات استعمال کرنے نہ سنا تھا جو اچانک قرآن کی صورت میں لوگ آپ سے سننے لگے۔ کبھی آپ وعظ کہنے کھڑےنہ ہوئے تھے۔ کبھی کوئی دعوت  اور تحریک لے کر نہ اُٹھے تھے۔ بلکہ کبھِ آپ کی کسی سر گرمی سے یہ گمان تک نہ ہو سکتا تھا کہ آپ اجتماعی مسائل کے حل ، یا مذہبی اصلاح یا اخلاقی اصلاح کے لیے کوئی کام شروع کرنے کی فکر میں ہیں۔ اس انقلابی ساعت سے ایک دن پہلے تک آپ کی زندگی ایک ایسے تاجر کی زندگی نظر آتی تھی جو سیدھے سادھے جائز طریقوں سے اپنی روزی کماتا ہے، اپنے بال بچوں کے ساتھ ہنسی خوشی رہتا ہے ، مہمانوں کی تواضع، غریبوں کی مدد اور تشتہ داروں سے حسن سلوک کرتا ہے ، اور کبھی کبھی عبادت کرنے کے لیےخلوت میں جا بیٹھتا ہے ۔ ایسے شخص کا یکایک ایک عالمگیر زلزلہ ڈال دینے والی خطابت کے ساتھ اُٹھنا، ایک انقلاب انگیز دعوت شروع کر دینا، ایک نرالا لٹریچر پیدا کر دینا، ایک مستقل فلسفہ حیات اور نظامِ فکر و اخلاق و تمدن لے کر سامنے آجانا، اتنا بڑا تغیر ہے  جو انسانی نفسیات کے لحاظ سے کسی بناوٹ اور تیاری اور ارادی کوشش کے نتیجے میں قطعاً رونما نہیں ہو سکتا۔ اس لیے کہ ایسی ہر کوشش اور تیاری بہر حال تدریجی ارتقاء کے مراحل سے گزرتی ہے اور یہ مراحل اُن لوگوں سے کبھی  مخفی نہیں رہ سکتے  جن کے درمیان آدمی شب و روز زندگی گزارتا ہو۔ اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ان مراحل سے گزری ہوتی تو مکہ میں سینکڑوں زبانیں یہ کہنے والی  ہوتیں کہ ہم نہ کہتے تھے، یہ شخص ایک دن کوئی بڑا دعویٰ لے کر اُٹھنے والا ہے ۔ لیکن تاریخ شاہد ہے کہ کفار مکہ نے آپ پر  ہر طرح کے اعتراضات کیے ، مگر یہ اعتراض کرنے والا اُن میں سے کوئی ایک شخص بھی نہ تھا۔
          پھر یہ بات کہ آپ خود بھی نبوت کے خواہش مند ، یا اس کے لیے متوقع اور منتظر نہ تھے، بلکہ پوری بے خبری کی حالت میں اچانک آپ کو اس معاملہ سے سابقہ پیش آگیا، اس کا ثبوت اُس واقعہ سے ملتا ہے جو احادیث میں آغاز وحی کی کیفیت کے متعلق منقول  ہوا ہے۔ جبریلؑ سے پہلی ملاقات اور سورہ علق کی ابتدائی آیات کے نزول کے بعد آپ غارحرا سے کانپتے اور لرزتے ہوئے گھر پہنچتے  ہیں۔ گھر والوں سے کہتے ہیں کہ ”مجھے اُڑھاؤ، مجھے اڑھاؤ“۔ کچھ دیر کے بعد جب ذرا خوف زدگی کی کیفیت دور  ہوتی ہے تو اپنی رفیق زندگی کو سارا ماجرا سنا کر کہتے ہیں کہ ”مجھ اپنی جان کا ڈر ہے “۔ وہ فوراً جواب دیتی ہیں”ہرگز نہیں۔ آپ کو اللہ کبھی رنج میں نہ ڈالے گا۔ آپ تو قرابت داروں کے حق ادا کرتے ہیں۔ بے کس کو سہارا دیتے ہیں ۔ بے زر کی دستگیری کرتے ہیں۔ مہمانوں کی تواضح کرتے ہیں۔ ہر کار خیر میں مدد کرنے کے لیے تیار رہتے ہیں“۔ پھر وہ آپ کو لے کر وَرَقہ بن نَوفَل کے پاس جاتی ہیں جو ان کے چچا زاد بھائی اور اہلِ کتاب میں سے ایک ذی علم اور راستباز آدمی تھے۔ وہ آپ سے سارا واقعہ سننے کے بعد بلا تامل کہتے کہ ” یہ  جو آپ کے پاس آیا تھا  وہی ناموس(کاری خاص پر مامور فرشتہ) ہے جو موسیٰؑ کے پاس آتا تھا۔ کاش میں جوان ہوتا اور اُس وقت تک زندہ رہتا جب آپ کی قوم آپ کو  نکال دے گی“ آپ پوچھتے ہیں ”کیا یہ لوگ مجھے نکا ل دیں گے“؟ وہ جواب دیتے ہیں”ہاں، کوئی شخص ایسا نہیں گزرا کہ وہ چیز  لے کر آیا ہو جوآپ لائے  ہیں اور لوگ اس کے دشمن نہ وہ گئے ہوں“۔
          یہ پورا واقعہ اُس حالت کی تصویر پیش کر دیتا ہے جو بالکل فطری طور پر یکایک خلافِ توقع ایک انتہائی غیر معمولی تجربہ پیش آجانے سے کسی سیدھے سادھے انسان پر طاری ہو سکتی ہے ۔ اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پہلے سے نبی بننے کی فکر میں ہوتے ، اپنے متعلق یہ سوچ رہے ہوتے کہ مجھ جیسے آدمی کو نبی ہونا چاہیے، اور اس انتظآر میں مراقبے کر کر کے اپنی ذہن پر زور ڈال رہے ہوتے کہ کب کوئی فرشتہ آتا ہے اور میرے پاس پیغام لاتا ہے ، تو غارِ حرا ء والا معاملہ پیش آتے ہی آپ خوشی سے اچھل پڑتے اور بڑے دم دعوے کے ساتھ پہاڑ سے اتر کر سیدھے اپنی قوم کے سامنے  پہنچتے ، اور اپنی نبوت کا اعلان کردیتے ۔ لیکن اس کے بر عکس یہاں حالت  یہ ہے کہ جو کچھ دیکھا تھا اس پر ششدر رہ جاتے ہیں، کانپتے اور لرزتے ہوئے گھر پہنچتے ہیں، لحاف اوڑھ کر لیٹ جاتے ہیں، ذرا دل ٹھیرتا ہے تو بیوی کو چپکے سے بتاتے ہیں کہ آج غار کی تنہائی میں مجھ پر یہ حادثہ گزرا ہے ، معلوم نہیں کیا ہونے والا ہے ، مجھے اپنی جان کی خیر نظر نہیں آتی۔ یہ کیفیت نبوت کے کسی امید وار کی کیفیت سے کس قدر مختلف ہے ۔
          پھر بیوی سے بڑھ کر شوہر کی زندگی ، اس حالات اور اس کے خیالات کو کون جان سکتا ہے ؟ اگر ان کے تجربے میں پہلے سے یہ بات آئی ہوئی ہوتی کہ میاں نبوت کے امید وار ہیں ا ور ہر وقت فرشتے کے آنے کا انتظار کر رہے ہیں، تو ان کا جواب ہر گز وہ نہ ہوتا  جو حضرت خدیجہؓ نے دیا۔ وہ کہتیں کہ میاں گھبراتے کیوں ہو۔ جس چیز کی مدتوں سے تمنا تھی وہ مل گئی ، چلو، اب پیر کی دکان چمکاؤ، میں بھی نذرانے سنبھالنے کی تیاری کرتی ہوں۔ لیکن وہ پندرہ برس کی رفاقت میں آپ کی زندگی کا جو رنگ دیکھ چکی تھیں اس کی بنا پر انہیں یہ بات سمجھنے میں ایک لمحہ کی دیر بھی نہ لگی کہ ایسے  نیک اور بے لوث انسان کے پاس شیطان نہیں آسکتا ، نہ اللہ اس کو کسی بُری آزمائش میں ڈال سکتا ہے ، اس نے جو کچھ دیکھا ہے وہ سراسر حقیقت ہے۔
          اور یہی معاملہ وَرَ قہ میں نَوفَل کا بھی ہے ۔ وہ کوئی باہر کے آدمی نہ تھے بلکہ حضور  صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی برادری کے آدمی اور قریب کے رشتے سے برادرِ نسبتی تھے۔ پھر ایک ذی علم عیسائی ہونے کی حیثیت سے نبوت اور کتاب اور وحی کی بناوٹ اور تصنع سے مُمیَّز کر سکتے تھے۔ عمر میں کئی سال بڑَ ہونے کی وجہ سے آپ کی پوری زندگی بچپن سے اُس وقت تک ان کے سامنے تھی۔ انہوں نے بھی آپ کی زبان سے حراء کی سرگز شت سنتے ہی فوراً کہہ دیا کہ  یہ آنے والا یقیناً وہی فرشتہ ہے جو موسیٰ علیہ السلام پر وحی لاتا تھا۔ کیونکہ یہاں بھی وہی صورت پیش آئی تھی جو حضرت موسیٰ علیہ السلا م کے ساتھ پیش آئی تھی  کہ انتہائی پاکیزہ سیرت کا سیدھا سادھا انسان بالکل خالی الذہن سے ، نبوت کی فکر میں رہنا تو درکنار، اس کے حصول کا تصور تک اس کے حاشیہ خیال میں کبھی نہیں آیا ہے ۔ اور اچانک وہ پورے ہوش ہو حواس کی حالت میں علانیہ اس تجربے سے دوچار ہوتا ہے۔ اسی چیز نے اُن کو دو اور چار کی طرح بلاادنیٰ تامل اس نتیجہ تک پہنچا دیا کہ یہاں کوئی فریب نفس یا شیطانی کرشمہ نہیں ہے ، بلکہ اِس سچے انسان نے اپنے کسی ارادے اور خواہش کے بغیر جو کچھ دیکھا ہے وہ دراصل حقیقت ہی کا مشاہدہ ہے ۔
          یہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم  کی نبوت کا ایک ایسا بینِ ثبوت ہے کہ ایک حقیقت پسند انسان مشکل ہی سے اس کا انکار  کر سکتا ہے۔ اسی لیے قرآن میں متعدد مقامات پر اسے دلیلِ نبوت کی حیثیت سےپیش کیا گیا ہے۔ مثلاً سورہ یونس میں فرمایا:
         
قُلْ لَّو شَآءَ اللہُ مَا تَلَوْتُہٗعَلَیْکُمْ وَّ لَآ اَدْرٰکُمْ بِہٖ  فَقَدْ لَبِثْتُ فِیْکُمْ عُمُرًا مِّنْ قَبْلِہٖٓ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَo (آیت ۱۶)
اے نبیؐ ان سے کہو کہ اگر اللہ نے یہ نہ چاہا ہوتا تو  میں کبھی یہ قرآن تمہیں نہ سناتا بلکہ اس کی خبر تک وہ تم کو نہ دیتا۔ آخر میں اس سے پہلے ایک عمر تمہارے درمیان گزار چکا ہوں ، کیا تم اتنی بات بھی نہیں سمجھتے؟

اور سورۂ شوریٰ میں فرمایا:
مَا کُنْتَ تَدْرِیْ مَا الْکِتٰبُ وَلَا الْاِیْمَانُ وَلٰکِنْ جَعَلْنٰہُ نُوْرًا نَّھْدِیْ بِہٖ مَنْ  نَّشَآ ءُ مِنْ عِبَادِنَا۔ (آیت ۵۶)
اے نبیؐ، تم تو  جانتے تک نہ تھے کہ کتاب کیا ہوتی ہے اور ایمان کیا ہوتا ہے، مگر ہم نے اس وحی کو ایک نُور بنا دیا  جس سے ہم رہنمائی کرتے ہیں اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتے ہیں۔

مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد دوم، یونس، حاشیہ ۲۱۔ جلد سوم، عنکبوت حواشی ۸۸ تا ۹۲، جلد چہارم، الشوریٰ، حاشیہ ۸۴۔