یہ بات محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے ثبوت میں پیش کی جا رہی ہے ۔ جس طرح موسیٰ علیہ السلام بالکل بے خبر تھے کہ انہیں نبی بنا یا جانے والا ہے اور ایک عظیم الشان مشن پر وہ مامور کیے جانے والے ہیں ،اُن کے حاشیہ، خیال میں بھی اِس کا ارادہ یا خواہش تو درکنار اس کی توقع تک کبھی نہ گزری تھی، بس یکایک راہ چلتے انہیں کھینچ بلایا گیا اور نبی بنا کر وہ حیرت انگیز کام ان سے لیا گیا جو ان کی سابق زندگی سے کوئی مناسبت نہیں رکھتا تھا، ٹھیک ایسا ہی معاملہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بھی پیش آیا۔ مکہ کے لوگ خود جانتے تھے کہ غارِ حرا سے جس روز آپ نبوت کا پیغام لے کر اترے اُس سے ایک دن پہلے تک آپ کی زندگی کیا تھی، آپ کے مشاغل کیا تھے، آپ کی بات چیت کیا تھی۔ آپ کی گفتگو کے موضوعات کیا تھے، آپ کی دلچسپیاں اور سر گرمیاں کس نوعیت کی تھیں۔ یہ پوری زندگی صداقت، دیانت، امانت اور پاکبازی سے لبریز ضرور تھی۔ اس میں انتہائی شرافت، امن پسندی، پاسِ عہد، ادائے حقوق اور خدمتِ خلق کا رنگ بھی غیر معمولی شان کے ساتھ نمایا ں تھا۔ مگر اس میں کوئی چیز ایسی موجود نہ تھی جس کی بنا پر کسی کے وہم و گمان میں بھی یہ خیال گزر سکتا ہو کہ یہ نیک بند ہ کل نبوت کا دعویٰ لے کر اُٹھنے والا ہے۔ آپ سے قریب ترین ربط ضبط رکھنے والوں میں ، آپ کے رشتہ داروں اور ہمسایوں اور دوستوں میں کوئی شخص یہ نہ کہہ سکتا تھا کہ آپ پہلے سے نبی بننے کی تیاری کر رہے تھے۔ کسی نے اُن مضامین اور مسائل اور موضوعات کے متعلق کبھی ایک لفظ تک آپ کی زبان سے نہ سنا تھا جو غارِ حرا ء کی اُس انقلابی ساعت کے بعد یکایک آپ کی زبان پر جاری ہونے شروع ہو گئے۔ کسی نے آپ کو وہ مخصوص زبان اور وہ الفاظ اور اصطلاحات استعمال کرنے نہ سنا تھا جو اچانک قرآن کی صورت میں لوگ آپ سے سننے لگے۔ کبھی آپ وعظ کہنے کھڑےنہ ہوئے تھے۔ کبھی کوئی دعوت اور تحریک لے کر نہ اُٹھے تھے۔ بلکہ کبھِ آپ کی کسی سر گرمی سے یہ گمان تک نہ ہو سکتا تھا کہ آپ اجتماعی مسائل کے حل ، یا مذہبی اصلاح یا اخلاقی اصلاح کے لیے کوئی کام شروع کرنے کی فکر میں ہیں۔ اس انقلابی ساعت سے ایک دن پہلے تک آپ کی زندگی ایک ایسے تاجر کی زندگی نظر آتی تھی جو سیدھے سادھے جائز طریقوں سے اپنی روزی کماتا ہے، اپنے بال بچوں کے ساتھ ہنسی خوشی رہتا ہے ، مہمانوں کی تواضع، غریبوں کی مدد اور تشتہ داروں سے حسن سلوک کرتا ہے ، اور کبھی کبھی عبادت کرنے کے لیےخلوت میں جا بیٹھتا ہے ۔ ایسے شخص کا یکایک ایک عالمگیر زلزلہ ڈال دینے والی خطابت کے ساتھ اُٹھنا، ایک انقلاب انگیز دعوت شروع کر دینا، ایک نرالا لٹریچر پیدا کر دینا، ایک مستقل فلسفہ حیات اور نظامِ فکر و اخلاق و تمدن لے کر سامنے آجانا، اتنا بڑا تغیر ہے جو انسانی نفسیات کے لحاظ سے کسی بناوٹ اور تیاری اور ارادی کوشش کے نتیجے میں قطعاً رونما نہیں ہو سکتا۔ اس لیے کہ ایسی ہر کوشش اور تیاری بہر حال تدریجی ارتقاء کے مراحل سے گزرتی ہے اور یہ مراحل اُن لوگوں سے کبھی مخفی نہیں رہ سکتے جن کے درمیان آدمی شب و روز زندگی گزارتا ہو۔ اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ان مراحل سے گزری ہوتی تو مکہ میں سینکڑوں زبانیں یہ کہنے والی ہوتیں کہ ہم نہ کہتے تھے، یہ شخص ایک دن کوئی بڑا دعویٰ لے کر اُٹھنے والا ہے ۔ لیکن تاریخ شاہد ہے کہ کفار مکہ نے آپ پر ہر طرح کے اعتراضات کیے ، مگر یہ اعتراض کرنے والا اُن میں سے کوئی ایک شخص بھی نہ تھا۔ اور سورۂ شوریٰ میں فرمایا: |