اس رکوع کو چھاپیں

سورة القصص حاشیہ نمبر١۵

ہوشیاری کے ساتھ محل کے آس پاس چکر لگاتی رہی۔ پھر جب اسے پتہ چلا کہ بچہ کسی کا دودھ نہیں پی رہا ہے اور ملکہ عالیہ پریشان ہیں کہ کوئی ایسی انّا ملے جو بچے کو پسند آئے تو وہ ذہین لڑکی سیدھی محل میں پہنچ گئی اور جا کر کہا کہ  میں ایک  اچھی انّا کا پتہ بتاتی ہوں جو اس بچے کو بڑی شفقت کے ساتھ پالے گی۔

          اس مقام پر یہ بات بھی سمجھ لینی چاہیے کہ قدیم زمانے میں ان ممالک کے بڑے اور خاندانی لوگ بچوں کو اپنے ہاں پالنے کے بجائے عموماً انّا ؤں کے سپر د کر دیتے تھے اور وہ اپنے ہاں ان کی پرورش کرتی تھیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سریت میں بھی  یہ ذکر آتا ہے کہ مکّہ میں وقتاً فوقتاً اطراف و نواح  کی عورتیں انّا گیری کی خدمت کے لیے آتی تھیں اور سرداروں کے بچےدودھ پلانے کے لیے اچھے اچھے معاوضوں پر حاصل کر کے ساتھ لے جاتی تھیں۔ حضور ؐ نے خود بھی حلیمہ سعدیہ کے ہاں صحرا میں پرورش پائی ہے ۔ یہی طریقہ مصر میں بھی تھا ۔ اسی بنا پر حضرت موسیٰؑ کی بہن نے یہ نہیں کہا کہ میں ایک اچھی انّا لا کر دیتی ہوں ، بلکہ یہ کہا  کہ میں ایسے گھر کا پتہ بتاتی ہوں جس کے لوگ اس کی پرورش کا ذمہ لیں گے اور اسے خیر خواہی کے ساتھ پالیں گے۔