اس رکوع کو چھاپیں

سورة القصص حاشیہ نمبر١۹

حکم سے مراد حکمت، دانائی، فہم و فراست اور قوتِ فیصلہ ۔ اور علم سے مراد دینی  اور دنیوی علوم دونوں ہیں، کیونکہ اپنے والدین کے ساتھ ربط ضبط قائم رہنے کی وجہ سے ان کو اپنے باپ دادا (حضرت یوسف، یعقوب، اسحاق اور ابراہیم علیہم السلام) کی تعلیمات سے بھی واقفیت حاصل ہو گئی، اور بادشاہِ وقت کے ہاں شاہزادے کی حیثیت سے پرورش پانے کے باعث اُن کو وہ تمام دنیوی علوم بھی حاصل ہوئے جو اُس زمانے کے اہل مصر میں متداول تھے۔ اس حکم اور علم کے عطیہ سے مراد نبوت کا عطیہ نہیں ہے،کیونکہ  حضرت موسیٰؑ کو نبوت تو اس کے کئی سال بعد عطا فرمائی گئی، جیسا کہ آگے آرہا ہے  اور اس سے پہلے سورہ شعراء (آیت۲۱) میں بھی بیان ہو چکا ہے۔

          اِس زمانہ شاہزادگی کی تعلیم و تربیت کے متعلق بائیبل کی کتاب الاعمال میں بتایا گیا ہے  کہ ”موسیٰ نے مصریوں کے تمام علوم کی تعلیم پائی اور وہ کام اور کلام میں قوت والا تھا“(۲۲:۷) ۔ تلمود کا بیان ہے کہ موسیٰ علیہ السلام  فرعون کے گھر میں ایک خوبصورت جوان بن کر اُٹھے۔ شاہزادوں کا سا لباس پہنتے ، شاہزادوں کی طرح رہتے ،اور لوگ ان کی نہایت تعظیم و تکریم کرتے تھے۔ وہ اکثر جُشَن کے علاقے میں جاتے جہاں اسرائیلیوں کی بستیاں تھیں۔ اور ان تمام سختیوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھتے جو ان کی قوم کے ساتھ قِبطی حکومت کے ملازمین کرتے تھے۔ انہی کی کوشش سے فرعون نے اسرائیلیوں کے لیے ہفتہ میں ایک دن کی چھٹی مقرر کی۔ انہوں نے فرعون سے کہا کہ دائماً مسلسل کام کرنے کی وجہ سے یہ لوگ کمزور ہو جائیں گے اور حکومت ہی کے کام  کا نقصان ہوگا۔ ان کی وقت بحال ہو  ہونے کے لیے ضروری ہے کہ انہیں ہفتے میں ایک دن آرام کا دیا جائے۔ اسی طرح اپنی دانائی سے انہوں نے اور بہت سے ایسے کام کیے جن کی وجہ سے تمام ملک مصر میں ان کی شہرت ہوگئی تھی۔(اقتباسات تلمود۔ صفحہ۱۲۹)۔