اس رکوع کو چھاپیں

سورة القصص حاشیہ نمبر۲۲

اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ گھونسا کھآ کر جب مصری گرا ہوگا اور اس نے دم توڑ دیا ہوگا تو کیسی  سخت ندامت اور گھبراہٹ کی حالت میں یہ الفاظ حضرت موسیٰؑ کی زبان سے نکلے ہوں گے۔ ان کا کوئی ارادہ قتل کا نہ تھا۔ نہ قتل کے لیے گھونسا مارا جاتا ہے۔ نہ کوئی شخص یہ توقع رکھتا ہے کہ ایک گھونسا کھاتے ہی ایک بھلا چنگا آدمی پِرَان چھوڑ دے گا۔ اس بنا پر حضرت موسیٰؑ نے فرمایا کہ یہ شیطان کا کوئی شریر انہ منصوبہ معلوم ہوتا ہے ۔ اس نے ایک بڑا فساد کھرا کرنے کے لیے مجھ سے یہ کام کرایا ہے تا کہ ایک اسرائیلی کی حمایت میں ایک قبطی کو مار ڈالنے کا الزام مجھ پر عائد ہو اور صرف میرے ہی خلاف نہیں بلکہ تمام بنی اسرائیل کے خلاف مصر میں ایک طوفانِ عظیم اُٹھ کھڑا ہو۔ اس معاملہ میں بائیبل کا بیان قرآن سے مختلف ہے۔ وہ حضرت موسیٰؑ کو قتلِ عمد کا مجرم ٹھیراتی ہے۔ اس کی روایت یہ ہے کہ مصری اور اسرائیلی کو لڑتے دیکھ کر حضرت موسیٰؑ نے ”ادھر اُدھر نگاہ کی اور جب دیکھا کہ وہاں کوئی دوسرا آدمی نہیں ہے تو اس مصری کو  جان سے مار کر اسے ریت میں چھپا دیا“(خروج۱۲:۲)۔ یہی بات تلمود میں بھی قرآن کس طرح ان کی پوزیشن صاف کرتا ہے ۔ عقل بھی یہی  کہتی ہے کہ ایک حکیم و دانا آدمی، جسے آگے چل کر ایک اولو العزم پیغمبر ہونا تھا اور جسے انسان کو عدل و انصاف کا ایک عظیم الشان قانون دینا تھا، ایسا اندھا قوم پرست نہیں ہو سکتا  کہ اپنی قوم کے ایک فرد سے دوسری قوم کے کسی شخص کو لڑتے دیکھ کر آپے سے باہر ہو جائے اور جان بوجھ کر اسے قتل کر ڈالے۔ ظاہر ہے کہ اسرائیلی کو مصری کے پنچے سے چھڑا نے کے لیے اسے قتل کر دینا تو روانہ ہو سکتا تھا۔