اس رکوع کو چھاپیں

سورة القصص حاشیہ نمبر۳١

بائیبل کا بیان اس  امر میں قرآن سے متفق ہے کہ حضرت موسیٰؑ نے مصر سے نکل کر مَدْیَن کا رُخ کیا تھا۔ لیکن تلمود یہ بے سرو پا قصہ بیان کرتی ہے کہ حضرت موسیٰؑ مصر سے بھاگ کر حبش چلے گئے، اور وہاں بادشاہ کے مقرب ہوگئے۔ پھر اس کے مرنے پر لوگوں نے ان کو اپنا بادشاہ بنا لیا اور اس کی بیوہ سے ان کی شادی کر دی۔ ۴۰ سال انہوں نے وہاں حکومت کی۔ مگر اس  پوری مدت میں اپنی حبشی بیوی سے کبھی مقاربت نہ کی۔ ۴۰ سال گزرنے جانے کے بعد اس عورت حبش کے باشندوں سے شکایت کی  کہ اس شخص نے آج تک نہ تو مجھ سے زن و شَو کا تعلق رکھا ہے  اور نہ کبھِ حبش کے دیوتاؤں کی پرستش کی ہے ۔ اس پر امرائے سلطنت نے انہیں معزول کر کے اور بہت  سامال دے کر ملک سے باحترام رخصت کر دیا۔ تب وہ حبش سے مدین پہنچے اور وہ واقعات پیش آءے جو آگے بیان ہو رہے ہیں۔ اس وقت ان کی عمر ۶۷ سال تھی۔
          اس قصے کے بے سرو پا ہونے کی ایک کھلی ہوئی دلیل یہ ہے کہ اسی قصے میں یہ بھی بیان ہوا ہے کہ اُس زمانے میں اسیر یا(شمالی عراق) پر حبش کی حکومت تھی۔ ، اور اسیریا والوں کی بغاوتیں کچلنے کے لیے حضرت موسیٰؑ نے بھی اور ان کے پیش رد بادشاہ نے بھی فوجی چڑھائیاں کی تھیں۔ اب جو شخص بھی تاریخ و جغرافیہ سے کوئی واقفیت رکھتا ہو وہ نقشے پر ایک نگاہ ڈال کر دیکھ سکتا ہے کہ اسیریا پر حبش کا تسلط اور حبشی فوج کا حملہ یا تو اس صورت میں ہو سکتا تھا کہ مصر اور فلسطین و شام پر  اس کا قبضہ ہو تا، یا پورا ملک عرب اس کے زیر نگین ہوتا، یا پھر حبش کا بیڑا ایسا زبردسست ہو تا کہ وہ بحرِ ہند اور خلیج فارس کو عبور کر کے عراق فتح کر لیتا۔ تاریخ اس ذکر سے خالی ہے کہ کبھی حبشیوں کو ان ممالک پر تسلط حاصل ہوا ہو یا ان کی بحری طاقت اتنی زبر دست رہی ہو۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ بنی اسرائیل کا علم خود اپنی تاریخ کے بارے میں کتنا ناقص تھا اور قرآن ان کی غلطیوں کی تصیح کر کے صحیح واقعات کیسی منقّح صورت میں پیش کر تا ہے ۔ لیکن عیسائی اور یہودی مستشرقین کو یہ کہتے ذرا شرم نہیں آتی کہ قران  نے یہ قصّے بنی اسرائیل سے نقل کر لیے ہیں۔