اس رکوع کو چھاپیں

سورة القصص حاشیہ نمبر۳۵

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے اس فقرے کی تشریح کی ہے : جاءت تمشی علی استحیاء قائلۃ بثوبھا علی وجھھا لیست بسلفع من النساء دلاجۃ ولاجۃ خراجۃ۔”وہ شرم حیا کے ساتھ چلتی ہوئی اپنا منہ گھونگھٹ سے چھپائے ہوئے آئی۔ ان بے باک عورتوں کی طرح دّرانہ نہیں چلی آئی جو ہر طرف نکل جاتی اور ہر جگہ جا گھستی ہیں“۔ اس مضمون کی متعدد روایات سعید بن منصور، ابن جریر، ابن ابی حاتم اور ابن المنذر نے معتبر سندوں کے ساتھ حضرت عمرؓ سے نقل کی ہیں۔ اس سے صاف معلوم ہوتا  ہے کہ صحابہ کرام کے عہد میں حیا داری کا اسلامی تصور، جو قرآن اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم و تربیت سے ان بزرگوں سے سمجھا تھا، چہرے کو اجنبیوں ے سامنے کھولے پھرنے اور گھڑ سے باہر بے باکانہ چلت پھرت دکھانے کے قطعاً خلاف تھا۔ حضرت عمرؓ صاف الفاظ میں یہاں چہرہ ڈھانکنے کو حیا کی علامت اور اسے اجانب کے سامنے کھولنے کو بے حیائی قرار دے رہے ہیں۔