اس رکوع کو چھاپیں

سورة القصص حاشیہ نمبر۳٦

یہ بات شرم و حیا ہی کی وجہ سے انہوں نے کہی، کیونکہ ایک غیر مرد کے پاس اکیلی جگہ آنے کی کوئی معقول وجہ بتانی ضرور ی تھی۔ ورنہ ظاہر ہے کہ ایک شریف آدمی نے اگر عورت ذات کو پریشانی می مبتلا دیکھ کر اس کی کوئی مدد کی ہو تو اس کا بدلا دینے کے لیے کہنا کوئی اچھی بات نہ تھی۔ اور پھراس بدلے کا نام سن لینے کے باوجود حضرت موسیٰؑ جیسے عالی ظرف انسان کا چل پڑنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ اس وقت انتہائی اضطرار کی حالت میں تھے۔ بے سرو سامانی کے عالم  میں یکایک مصر سے نکل کھڑے ہوئے تھے۔ مدیت تک کم از کم آٹھ دن میں پہنچے ہوں گے۔ بھوک پیاس اور سفر کی تکان سے بُرا حال ہوگا۔ اور سب سے بڑھ کر یہ فکر ہوگی کہ اس دیارِ غیر میں کوئی ٹھکانہ میسر آئے اور کوئی ایسا ہمدرد ملے جس کی پناہ میں رہ سکیں۔ اسی مجبوری کی وجہ سے یہ لفظ سُن لینے کے باوجود کہ اس ذرا سی خدمت کا اجر دینے کے لیے بلایا جا رہا ہے ، حضرت موسیٰؑ نے جا نے میں تامل نہ کیا۔ انہوں نے خیال فرمایا ہوگا کہ خدا سے ابھی ابھی جو دعا میں نے مانگی ہے ، اسے پورا کرنے کا یہ سامان خدا ہی کی طرف سے ہوا ہے اس لیے اب خواہ مخواہ خودداری کا مظاہر ہ کر کے اپنے رب کے فراہم کر دہ سامان میزبانی کو ٹھکرانا  مناسب  نہیں ہے۔