اس رکوع کو چھاپیں

سورة القصص حاشیہ نمبر۳۸

یہ بھی ضرور نہیں کہ بیٹی کی بات سنتے ہی باپ نے فوراً حضرت موسیٰؑ سے یہ بات کہہ دی ہو۔ قیاس چاہتا ہے کہ انہوں نے بیٹی کے مشورے پر غور کرنے کے بعد یہ رائے قائم کی ہوگی آدمی شریف سہی، مگر جوان بیٹیوں کے گھر میں ایک جوان، تندرست و توانا آدمی کو یونہی ملازم رکھ چھوڑنا مناسب نہیں ہے۔ جب یہ شریف ، تعلیم یافتہ، مہذب اور خاندانی آدمی ہے(جیسا کہ حضرت موسیٰؑ کا قصہ انہیں معلوم ہو چکا ہوگا) تو کیوں نہ اسے داماد بنا کر ہی گھر میں رکھا جائے۔ اس رائے پر پہنچنے  کے بعد انہوں  نے کسی مناسب وقت پر حضرت موسیٰؑ سے یہ بات کہی ہوگی۔
          یہاں پھر بنی اسرائیل کی ایک کرم فرمائی ملاحظہ ہو جو انہوں نے اپنے جلیل القدر نبی، اپنے سب سے بڑے محسن اور قومی ہیرو پر کی ہے۔ تلمود میں کہا گیا ہے کہ ”موسیٰؑ رعویل کے ہاں رہنے لگے، اور وہ اپنے میزبان کی بیٹی صفورہ پر نظرِ عنایت رکھتے تھے، یہاں تک کہ آخر کار انہوں نے اس سے بیاہ کر لیا“۔ ایک اور یہودی روای جو جیوش انسائیکلو پیڈیا میں نقل کی گئی ہے، یہ ہے کہ ”حضرت موسیٰؑ نے جب یتھرو کو اپنا سارا ماجرا سنایا تو اس نے سمجھ لیا کہ یہی وہ شخص ہے جس کے ہاتھوں فرعون کی سلطنت تباہ ہونے کی پیشن گوئیاں کی گئی تھیں۔ اس لیے اس نے فوراً حضرت موسیٰؑ کو قید کر لیا تا کہ انہیں فرعون کے حوالہ کر کے انعام حاصل کر ے۔ سات یا دس سال تک وہ اس کی قید میں رہے ۔ ایک تاریک تہ خانہ تھا جس میں وہ بند تھے۔ مگر یتھرو کی بیٹی زفورا(صفورا) جس سے کنویں پر ان کی پہلی ملاقات ہوئی تھی، چپکے چپکے ان سے قید خانے میں ملتی رہی اور انہیں کھانا پانی بھی پہنچاتی رہی۔ ان دونوں میں شادی کی خفیہ قرار داد ہو چکی تھی۔ سات یا دس سال کے بعد زفورا نے اپنے باپ سے کہا  کہ اتنی مدت ہوئی آپ نے ایک شخص کو قید میں ڈال دیا تھا اور پھر اس کی خبر تک نہ لی۔ اب تک اسے مرجانا چاہییے تھا ۔ لیکن اگر وہ اب بھی زندہ ہو تو ضرور کوئی خدا رسیدہ آدمی ہے۔ یتھرو اس کی یہ بات سن کر جب قید خانے میں گیا تو حضرت موسیٰؑ کو زندہ دیکھ کر اسے یقین آگیا کہ وہ معجزیے ے زندہ ہیں ۔ تب اس نے زفورا سے ان کی شادی کر دی“۔
          جو مغربی مستشرقین قرآنی قصّوں کے مآخذ ڈھونڈتے پھرتے  ہیں انہیں کہیں کہ کھلا فرق بھی نظر آتا ہے جو قرآن کے بیان اور اسرائیلی روایات میں پایا جاتا ہے؟