یہ بھی ضرور نہیں کہ بیٹی کی بات سنتے ہی باپ نے فوراً حضرت موسیٰؑ سے یہ بات کہہ دی ہو۔ قیاس چاہتا ہے کہ انہوں نے بیٹی کے مشورے پر غور کرنے کے بعد یہ رائے قائم کی ہوگی آدمی شریف سہی، مگر جوان بیٹیوں کے گھر میں ایک جوان، تندرست و توانا آدمی کو یونہی ملازم رکھ چھوڑنا مناسب نہیں ہے۔ جب یہ شریف ، تعلیم یافتہ، مہذب اور خاندانی آدمی ہے(جیسا کہ حضرت موسیٰؑ کا قصہ انہیں معلوم ہو چکا ہوگا) تو کیوں نہ اسے داماد بنا کر ہی گھر میں رکھا جائے۔ اس رائے پر پہنچنے کے بعد انہوں نے کسی مناسب وقت پر حضرت موسیٰؑ سے یہ بات کہی ہوگی۔ |