اس رکوع کو چھاپیں

سورة القصص حاشیہ نمبر۳۹

بعض لوگوں نے حضرت موسیٰؑ اور لڑکی کےوالد کی اس گفتگو کو نکاح کا ایجاب و قبول سمجھ لیا ہے اور یہ بحث چھیڑ دی ہے کہ آیا باپ کی خدمت بیٹی کے نکاح کا مہر قرار پا سکتی ہے؟ اور کیا عقدِ نکاح میں اس طرح کی خارجی شرائط شامل ہو سکتی ہیں؟ حالانکہ آیاتِ زیر بحث کی عبادت سے خود ہی یہ بات ظاہر ہو رہی ہے  کہ عقدِ نکاح نہ تھا بلکہ وہ ابتدائی بات چیت تھی جو نکاح سے پہلے تجویز نکا ح کے سلسلے میں بالعموم دنیا میں ہوا کرتی ہے ۔ آخر یہ نکاح کا ایجاب و  قبول کیے ہو سکتا ہے جبکہ یہ تعیُّن بھی اس میں نہ کیا گیا تھا کہ دونوں لڑکیوں میں سے کونسی نکاح میں دی جا رہی ہے ۔ اس گفتگو کا ماحصل تو صرف یہ تھآ کہ لڑکی کے باپ نے کہ میں  اپنی لڑکیوں میں سے  ایک کا نکاح تم سے کر دینے کے لیے تیار ہوں، بشرطیکہ  تم مجھ سے وعدہ کرو کہ آٹھ دس سال میرے ہاں رہ کر میرے گھڑ کے کام کاج میں میرا ہاتھ بٹاؤ گے۔ کیونکہ اس رشتے سے میری اصل غرض یہی ہے کہ میں بوڑھا آدمی ہوں، کوئی بیٹا میرے ہاں نہیں ہے  جو میری جائداد کا انتظام سنبھالے ، لڑکیاں ہی لڑکیاں ہیں جنہیں مجبوراً باہر نکالتا ہوں، میں چاہتا ہوں کہ داماد میرا دست بازوں بن کر رہے ، یہ ذمہ داری اگر تم سنبھالنے کے لیے تیار ہو اور شادی کے بعد ہی بیوی کو لے کر چلے جانے کا ارادہ نہ رکھتے ہو، تو میں اپنی ایک لڑکی کا نکاح تم سےکر دوں گا۔ حضرت موسیٰؑ اس وقت خود ایک ٹھکانے کے طالب تھے۔ انہوں نے اس تجویز کو قبول کر لیا۔ ظآہر ہے کہ یہ ایک معاہدے کی صورت تھی جو نکاح سے پہلے فریقین میں طے  ہوئی تھی۔ اس کے بعد اصل نکاح قاعدے کے مطابق ہوا ہوگا اور اس میں مہر بھی باندھا گیا ہو گا۔ اُس عقید میں خدمت کی شرط شامل ہونے کی کوئی وجہ نہ تھی۔