اس رکوع کو چھاپیں

سورة القصص حاشیہ نمبر۴

یعنی اس کی حکومت کا قاعدہ یہ نہ تھا کہ قانون کی نگاہ میں ملک کے سب باشندے یکساں ہوں اور سب کو برابر کے حقوق دیے جائیں، بلکہ اس نے تمدّن و سیاست کا یہ طرز اختیار کیا کہ ملک کے باشندوں کو گروہوں میں تقسیم کیا جائے، کسی کو مراعات و امتیازات دے کر حکمراں گروہ ٹھیرا یا جائے اور کسی کو محکوم بنا کر دبا یا اور پیسا اور لُوٹا جائے۔

          یہاں کسی کو یہ شبہہ لاحق نہ ہو کہ اسلامی حکومت بھی تو مسلم اور ذمّی کے درمیان تفریق کرتی ہے اور ان کے حقوق و اختیارات ہر حیثیت سے یکساں نہیں رکھتی ۔ یہ شبہہ اس لیے غلط ہے کہ اس فرق کی بنیاد فرعونی تفریق کے بر عکس نسل، رنگ ، زبان، یا طبقاتی امتیاز پر نہیں ہے بلکہ اُصول اور مسلک کے اختلاف پر ہے ۔ اسلامی نظامِ حکومت میں ذمّیوں اور مسلمانوں کے درمیان قانونی حقوق میں قطعاً کوئی فرق نہیں ہے۔ تمام تر فرق صرف سیاسی حقوق میں ہے ۔ اور اس فرق کی وجہ اس کے سوا کچھ نہیں کہ ایک اصولی حکومت میں حکمراں جماعت صرف وہی ہو سکتی ہے  جو حکومت کے بنیادی اصولوں کی حامی ہو۔ اس جماعت میں ہر وہ شخص داخل ہو سکتا ہے  جو اس کے اصولوں کو مان لے ، اور ہر وہ شخص اس سے خارج ہو جاتا ہے جو ان اصولوں کا منکر ہو جائے۔ آخر اس تفریق میں اور اُس فرعونی طرزِ تفریق میں کیا وجہ مشابہت ہے جس کی بنا پر محکوم نسل کا کوئی فرد کبھی حکمراں گروہ شامل نہیں ہو سکتا۔ جس میں محکوم  نسل کے لوگوں کو سیاسی اور قانونی حقوق تو درکنار بنیادی انسانی حقوق بھی حاصل نہیں ہوتے، حتّٰی کہ زندہ رہنے کا حق بھی ان سے چھین لیا جاتا ہے۔ جس میں محکوموں کے لیے کسی حق کی بھی کوئی ضمانت نہیں ہوتی، تمام فوائد و منافع اور حسنات و درجات صرف حکمراں قوم کے لیے مختص ہوتے ہیں، اور یہ مخصوص حقوق صرف اسی شخص کو حاصل ہوتے ہیں جو حکمراں قوم میں پیدا ہو جائے۔