اس رکوع کو چھاپیں

سورة القصص حاشیہ نمبر۴١

اس سفر کا رُخ طور کی جانب ہونے سے یہ خیال ہوتا ہے کہ حضرت موسیٰؑ اپنے اہل وعیال کو لے کر مصر ہی جانا چاہتے ہوں گے۔ اس لیے کہ طور اُس راستے پر ہے جو مَدْیَن سے مصر کی طرف جاتا ہے ۔ غالباً حضرت موسیٰؑ نے خیال کیا ہوگا کہ دس سال گزر چکے ہیں۔ فرعون بھِ مر چکا ہے جس کی حکومت کے زمانے میں وہ مصر سے نکلے تھے۔ اب اگر خاموشی کے ساتھ وہاں چلا جاؤں اور اپنے خاندان والوں کے ساتھ  پڑوں  تو شاید کسی کو میرا پتہ بھی نہ چلے ۔
          بائیبل کا بیان یہاں واقعات کی ترتیب میں قرآن کے بیان سے بالکل مختلف ہے ۔ وہ کہتی ہے کہ حضرت موسیٰؑ اپنے خسر کی بکریاں چَراتے ہوئے ”بیا بان کے پرلی طرف سے خدا کے پہاڑ حورب کے نزدیک“آ نکلے تھے۔ اُس وقت  اللہ تعالیٰ نے ان سے کلام کیا اور انہیں رسالت کے منصب پر مامور کر کے مصر جانے کا حکم دیا۔ پھر وہ اپنے خسر کے پاس واپس آگئے اور ان سے اجازت لے کر اپنے ہاں بچوں  کےساتھ مصر روانہ ہوئے(خروج۱:۳۔۱۸:۴)۔ س کے برعکس قرآن کہتا ہے کہ حضرت موسیٰؑ مدت پوری کرنے کے بعد اپنے اہل عیال کو لے کر مدین سے روانہ ہوئے اور اس سفر میں اللہ تعالیٰ کی مخاطبت اور منصب نبوت پر تقرر کا معاملہ پیش آیا۔
          بائیبل اور تلمود دونوں کا متفقہ بیان ہے کہ حضرت موسیٰؑ کے زمانہ قیامِ مدین میں وہ فرعون مر چکا تھا جس کے ہاں انہوں نے پرورش پائی تھی اور اب ایک دوسرا فرعون مصر کا فرمانروا تھا۔