اس رکوع کو چھاپیں

سورة القصص حاشیہ نمبر۵

بائیبل میں اس کی جو تشریح ملتی ہے وہ یہ ہے:
          تب مصر میں ایک نیا بادشاہ ہوا جو یوسف کو نہیں جانتا تھا۔ اور اس نے اپنی قوم کے لوگوں سے کہا کہ دیکھو اسرائیلی ہم سے زیادہ اور قوی ہو گئے ہیں سو آؤ ہم ان کے ساتھ حکمت سے پیش آئیں ایسانہ ہو کہ جب وہ اور زیادہ ہو جائیں اور اس وقت جنگ چھڑ جائے تو وہ ہمارے دشمنوں سے مل کر ہم سے لڑیں اور ملک سے نکل جائیں۔ اس لیے انہوں نے ان پر بیگار لینے والے مقرر کیے جو ان سے سخت کام لے کر انہیں ستائیں۔ سو انہوں نے فرعون کے لیے ذخیرے کے شہر پتُوم اور رَعمسَیس بنائے۔۔۔۔ اور مصریوں نے بنی اسرائیل پر تشدد کر کے ان سے کام کروایا اور انہوں نے ان سے سخت محنت سے گارا اور اینٹ بنوا بنوا کر اور رکھیت میں ہر قسم کی خدمت لے کر ان کی زندگی تلخ کی۔ ان کی سب خدمتیں جو وہ ان سے کراتے تھے تشدد کی تھیں۔۔۔۔ تب مصر کے بادشاہ عبرانی دائیوں سے ۔۔۔۔ باتیں کیں اور کہا کہ جب عبرانی(یعنی اسرائیلی)عورتوں کے تم بچہ جناؤ اور ان کو پتھر کی بیٹھکوں پر بیٹھی دیکھو تو اگر بیٹا ہو تو اسے مار ڈالنا اور اگر بیٹی ہو تو جیتی رہے“۔(خروج ، باب۱۔ آیت۸۔۱۶)۔
          اس سے معلوم ہوا کہ حضرت یوسف علیہ السلام کا دور گزر جانے کے بعد مصر میں ایک قوم پر ستانہ انقلاب ہوا تھا اور قبطیوں کے ہاتھ میں جب دوبارہ اقتدار آیا تو نئی قوم پرست حکومت نے بنی اسرائیل کا زور توڑنے کی پوری کوشش کی تھی۔ اس سلسلے میں صرف اتنے ہی پر اکتفا نہ کیا گیا کہ اسرائیلیوں کو ذلیل و خوا ر کیا جاتا اور انہیں ادنیٰ درجے کی خدمات کے لیے مخصوص کر لیا جاتا، بلکہ اس سے آگے بڑھ کر یہ پالیسی اختیار کی گئی کہ بنی اسرائیل کی تعداد گھٹائی جائے اور ان کے لڑکوں کو قتل کر کے صرف ان کی لڑکیوں کو زندہ رہنے دیا جائے تا کہ رفتہ رفتہ ان کی  عورتیں قبطیوں کے تصرف میں آتی جائیں اور ان سے اسرائیل کے بجائے قبطی نسل پیدا ہو ۔ تلمود اس کی مزید تفصیل یہ دیتی ہے  کہ حضرت یوسف کی وفات پر ایک صدی سے کچھ زیادہ مدّت گزر جانے کے بعد یہ انقلاب ہوا تھا۔ وہ بتاتی ہے  کہ نئی قوم پر ست حکومت نے پہلے تو بنی اسرائیل کو ا ن کی زرخیز زمینوں اور ان کے مکانات اور جائدادوں سے محروم کیا۔ پھر انہیں حکومت کے تمام مناسب سے بے دخل کیا۔ اس کے بعد بھی جب قبطی حکمرانوں نے محسوس کیا کہ بنی اسرائیل اور ان کے ہم مذہب مصری کافی طاقت ور ہیں تو انہوں نے اسرائیلیوں کو ذلیل و خوار کرنا شروع کیا اور ان سے سخت محنت کے کام قلیل معاوضوں پر یا بلا معاوضہ  لینے لگے ۔ یہ تفسیر ہے قرآن کے اس بیان کی کہ مصر کی آبادی کے ایک گروہ کو وہ ذلیل کرتا تھا۔ اور سورہ بقرہ میں اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کی آلِ فرعون بنی اسرائیل کو سخت عذاب دیتے تھے۔(یَسُوْمُوْنَکُمْ سُوٓ ْءَ الْعَذَابِ)

          مگر بائیبل اور قرآن دونوں اس ذکر سے خالی ہیں کہ فرعون سے کسی نجومی نے یہ کہا تھا کہ بنی اسرائیل میں ایک لڑکا پیدا  ہونے والا ہے جس کے ہاتھوں فرعونی اقتدار کا تختہ اُلٹ جائے گا اور اسی خطرے کو روکنے کے لیے فرعون نے اسرائیل کے لڑکوں کو قتل کرنے کا حکم دیا تھا۔ یا فرعون نے کوئی خوفناک خواب دیکھا تھا اور اس کی تعبیر یہ دی گئی تھی کہ ایک لڑکا بنی اسرائیل میں ایسا اور ایسا پیدا ہونے والا ہے ۔ یہ افسانہ تلمود اور دوسری اسرائیلی روایات سے ہمارے مفسرین نے نقل کیا ہے (ملاحظہ ہو جیوش انسائیکلو پیڈیا، مضمون”موسیٰ“اور (The Talmud Selection s.p. 124-23