اس رکوع کو چھاپیں

سورة القصص حاشیہ نمبر۵۲

اس قول سے فرعون کا مطلب ظاہر ہے کہ یہ نہیں تھا اور نہیں ہو سکتا تھا کہ میں ہی تمہارا اور زمین و آسمان کا خالق ہوں ، کیونکہ ایسی بات صرف ایک پاگل ہی کے منہ سے نکل سکتی تھی۔ اور اسی طرح اس کا مطلب یہ بھی نہیں ہو سکتا تھا کہ میرے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں ہے، کیونکہ اہلِ مصر کے مذہب میں بہت سے معبودوں کی پرستش ہوتی تھی اور خود فرعون کو جس بنا پر معبود یت کا مرتبہ دیا گیا تھا وہ بھی صرف یہ تھی کہ اسے سُورج دیوتا کا اوتار مانا جاتا تھا۔ سب سے بڑی شہادت قرآن مجید  کی موجود ہے کہ فرعون خود بہت سے دیوتاؤں کا پرستار تھا: وَقَالَ الْمَلَاُ مِنْ قَوْمِ فِرْعَوْنَ اَتَذَرُ مُوْسیٰ وَقَوْمَہٗ لِیُفْسِدُوْ ا فِی الْاَرْضِ وَیَذَرَکَ وَاٰلِھَتَکَ،”اور فرعون کی قوم کے سرداروں نے کیا کیا تو موسیٰ اور اس کی قوم کو چھوٹ دے دیگا  کہ ملک میں فساد برپا کر یں اور تجھے اور تیرے معبودوں کو چھوڑ دیں ؟(الاعراف،آیت۱۲۷)۔ اس لیے لامحالہ یہاں فرعون نے لفظ”خدا“ اپنے لیے بمعنی خالق و معبود نہیں بلکہ بمعنی مطاع و حاکمِ مطلق استعمال کیا تھا۔ اس کا مدعا یہ تھا کہ اس سر زمین ِ مصر کا مالک میں ہوں ، یہاں میرا حکم چلے گا۔ میرا ہی قانون یہاں قانون مانا جائے گا۔ میری ذات ہی یہاں امر ونہی کا سرچشمہ تسلیم کی جائے گی۔ کوئی دوسرا یہاں حکم چلانے کا مجاز نہیں ہے ۔ یہ موسیٰ کون ہے  جو رب العالمین کا نمائندہ بن کر آکھڑا ہوا ہے اور مجھے اس طرح احکام سنا رہا ہے کہ گویا اصل فرمانروا یہ ہے  اور میں اس کا تابع فرمان ہوں ۔ اسی بنا پر اس نے اپنے دربار کے لوگوں کو مخاطب کر کے کہا تھا یٰقَوْمِ اَلَیْسَ لِیْ مُلْکُ مِصْرَ وَھٰذِہٖ الْاَنْھَا رُ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِیْ،”اے قوم، کیا مصر کی بادشاہی میری نہیں ہے ، اور یہ نہریں میرے تحت جاری نہیں ہیں“؟(الزخرف، آیت۵۱) اور اسی بنا پر وہ حضرت موسیٰؑ سے بار بار کہتا تھا اَجِئْتَنَا لِتَلْفِتَنَا عَمَّا وَجَدُنَا عَلَیْہِ اٰبَآ ءَنَا وَتَکُوْنَ لَکُمَا الْکِبْرِیَآ ءُ فِی الْاَرْضِ، ”کیا تو اس لیے آیا ہے کہ ہمیں اُس طریقے سے ہٹا دے جو ہمارے باپ دادا کے زمانے سے چلا آرہا  ہے اور اس ملک میں بڑائی تم دونوں بھائیوں کی ہو جائے“؟(یونس، آیت۷۸) اَجِئْتَنَا لِتُخْرِجَنَا مِنْ اَرْضِنَا بِسِحْرِ کَ یٰمُوْسٰی،” اے موسیٰ کیا تو اس لیے آیا ہے  کہ ہمیں اپنے جادو کے زور سے ہماری زمین سے بے دخل کر دے“؟(طٰہٰ۔آیت۵۷)۔  اِنِّیْٓ اَخَا فُ اَنْ یُّبْدِّ لَ دِیْنَکُمْ اَوْ اَنْ یُّظْھِرَ فِی الْارْضِ الْفَسَادَ، ” میں ڈرتا ہوں کہ یہ شخص تم لوگوں کا دین بدل ڈالیگا، یا ملک میں فساد برپا کرے گا“(المومن۔ آیت۲۶)۔
          اس لحاظ سے اگر غور کیا جائے تو فرعون کی پوزیشن اُن ریاستوں کی پوزیشن سے کچھ بھی مختلف نہیں ہے جو خدا کے پیغمبر کی لائی ہوئی شریعت سے آزاد خود مختیار ہو کر اپنی سیاسی اور قانونی حاکمیت کی مدعی ہیں۔ وہ خواہ سرچشمہ قانون اور صاحبِ قانون امر ونہی کسی بادشاہی کو مانیں یا قوم کی مرضی کو، بہر حال جب تک وہ یہ موقف اختیار کیے ہوئے ہیں کہ ملک میں خدا اور اس کے رسول کا نہیں بلکہ ہمارا حکم چلے گا اس وقت تک ان کے اور فر عون کے موقف  میں کوئی  اصولی فرق نہیں ہے  ۔ اب یہ الگ بات ہے کہ بے شعور لوگ فرعون پر لعنت بھیجتے  رہیں اوراِن کو سندِ جواز عطا کرتے رہیں۔ حقائق کی سمجھ بوجھ رکھنے والا آدمی تو معنی اور روح کو دیکھے گا نہ کہ الفاظ اور اصطلاحات کو۔ آخر اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ فرعون نے اپنے لیے ”اِلٰہ“کالفظ استعمال کیا تھا، اور یہ اس معنی میں ”حاکمیت “اصطلاح استعمال کرتی ہیں۔(مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن  جلد سوم ، سورہ طٰہٰ ۔ حاشیہ ۲۱)۔