اس رکوع کو چھاپیں

سورة القصص حاشیہ نمبر٦۴

یہ تینوں باتیں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت  میں پیش کی گئی ہیں۔ جس وقت یہ باتیں کہی گئی تھی اس وقت مکہ کے تمام سردار اور عام کفار اس بات پر پوری طرح تلے ہوئے تھے کہ کسی نہ کسی طرح آپ کو غیر نبی ۔ اور معاذ اللہ جھوٹا مدعی ثابت کر دیں۔ ان کی مدد کے لیے یہود کے علماء اور عیسائیوں کے راہب بھی حجاز کی بستیوں میں موجود تھے۔ اور محمد  صلی اللہ علیہ وسلم کہیں عالم بالا سے آکر یہ قرآن  نہیں سنا جاتے تھے۔ بلکہ اُسی مکہ کے رہنے والے تھے اور آپ کی زندگی کا کوئی گوشہ آپ کی بستی اور آپ کے قبیلے کے لوگوں سے چھپا ہوا نہ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ جس وقت اس کھلے چیلنج کے انداز میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے ثبوت کے طور پر یہ تین باتیں ارشاد فرمائی گئی ، اس وقت مکے، اور حجاز، اور پورے عرب میں کوئی ایک شخص بھی اٹھ کر وہ بیہودہ بات نہ کہہ سکا  جو آج کے مستشرقین کہتے ہیں۔ اگر چہ جھوٹ گھڑ نے  میں وہ لوگ اِن سے کچھ کم نہ تھے، لیکن ایسا درو غِ فروغ آخر وہ کیسے بول سکتے تھے جو ایک لمحہ کے لیے بھی نہ چل سکتا ہو۔ وہ کیسے  کہتے کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم، تم فلاں فلاں یہودی عالموں اور عیسائی راہبوں سے یہ معلومات حاصل کر لائے ہو، کیونکہ پورے ملک میں وہ اِس  غرض کے لیے کسی کا نام نہیں لے سکتے تھے۔ جس کا نام بھی وہ لیتے ، فوراً ہی یہ ثابت ہو جاتا کہ  اس سے آنحضرتؐ  نے کوئی  معلومات حاصل نہیں کی ہیں۔ وہ کیسے کہتے کہ اے محمد ؐ، تمہارے  پاس پچھلی تاریخ اور علوم آداب کی ایک لائبریری موجود ہے جس کی مدد سے تم یہ ساری تقریریں کر رہے ہو، کیونکہ لائبریری تو درکنار، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے آس پاس کہیں سے وہ ایک کاغذ کا پرزہ بھی بر آمد نہیں کر سکتے تھے جس میں یہ معلومات لکھی ہوئی ہوں ۔ مکے کا بچہ بچہ جانتا تھا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم لکھے پڑھے آدمی نہیں ہیں، اور کوئی یہ بھی نہیں کہہ سکتا تھا کہ آپ نے کچھ مترجمین کی خدمات حاصل کر رکھی ہیں جو عبرانی اور سُریانی اور یونانی کتابوں کے ترجمے کر کرکے آپ کو دیتے ہیں۔ پھر ان میں سے کوئی بڑے سے بڑا بے حیا آدمی بھی یہ دعویٰ کرنے کی جرأت نہ رکھتا تھا کہ شام و فلسطین کے تجارتی سفروں میں آپ یہ معلومات حاصل کر آئے تھے۔ کیونکہ یہ سفر تنہا نہیں ہوئے تھے۔ مکے ہی کے تجارتی قافلے ہر سفر میں آپ کےساتھ لگے ہوتے تھے۔ اگر کوئی اس وقت ایسا دعویٰ کرتا تو سینکڑوں زندہ شاہد یہ شہادت دے دیتے کہ  وہاں آپ نے کسی سے کوئی درس نہیں لیا۔ اور آپ کی وفات کے بعد تو دوسال کے اندر ہی رومیوں سے  مسلمان بر سر پیکا ر ہوگئے تھے۔ اگر کہیں جھوٹوں بھی شام و فلسطین میں کسی عیسائی راہب یا یہودی ربِّ سے حضور ؐ نے کوئی مذاکرہ کیا ہوتا تو رومی سلطنت رائی کا پہاڑ بنا کر یہ پروپیگنڈا کرنے میں ذرا دریغ نہ کرتی محمد صلی اللہ علیہ وسلم، معاذ اللہ سب کچھ یہاں سے سیکھ گئے تھے اور مکے جا کر نبی بن بیٹھے۔ غرض ، اُس زمانے میں جبکہ قرآن کا یہ چیلنچ قریش کے کفار و مشرکین کے لیے پیامِ موت کی حیثیت رکھتا تھا، اور اس کو جھٹلانے کی ضرورت موجود ہ زمانے کے مستشرقین کی بہ نسبت اُن لوگوں کو بدر جہاز یادہ لاحق تھی ، کوئی شخص بھی کہیں سے ایسا کوئی مواد فراہم کر کے نہ لا سکا جس سے وہ یہ ثابت کر سکتا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس وحی کے سوا اِن معلومات کے حصول کا کوئی دوسرا ذریعہ موجود ہے جس کی نشان دہی  کی جا سکتی ہو۔
          یہ بات بھی جان لینی چاہیے  کہ قرآن نے یہ چیلنج اِسی ایک جگہ نہیں دیا ہے بلکہ متعدد مقامات پر مختلف قصّوں کے سلسلہ میں دیا ہے۔ حضرت ذکریا اور حضرت مریم کا قصّہ بیان کر کے فرمایا  ذٰلِکَ مِنْ اَنْبَآ ءِ الْغَیْبِ نُوْحِیْہِ اِلَیْکَ وَمَا کُنْتَ لَدَیْھِمْ اِذْ یُلْقُوْنَ اَقْلَا مَھُمْ اَیُّہُمْ یَکْفُلُ مَرْیَمَ وَمَا کُنْتَ لَدَیْہِمْ اِذْ یَخْتَصِمُوْنَ، ”یہ غیب کی خبروں میں سے ہے جو ہم وحی کے ذریعہ سے تمہیں دے رہے ہیں ، تم اُن لوگوں کے آس پاس کہیں موجودنہ تھے جبکہ وہ اپنے قرعے یہ طے  کرنے کے لیے پھینک رہے تھے کہ مریم کی کفالت کو ن کرے۔ اور نہ تم اس وقت موجود تھے جبکہ وہ  جھگڑ رہے تھے“(آل عمران، آیت ۴۴)۔ حضرت یوسف ؑ  کا قصّہ بیان کرنے کے بعد فرمایا  ذٰلِکَ مِنْ اَنْبَآءِ الْغَیْبِ نُوْحِیْہِ اِلَیْکَ وَمَا کُنْتَ لَدَیْھِمْ اِذْ اَجْمَعُوْ ٓا اَمْرَھُمْ وَھُمْ یَمْکُرُوْنَ،”یہ غیب کی خبروں میں سے ہےجو ہم وحی کے ذریعہ سے تمہیں دے رہے ہیں ، تم ان کے (یعنی یوف کے بھائیوں کے) آس پاس  کہیں موجود نہ تھے جبکہ انہوں نے اپنی تدبیر پر اتفاق کیا اور ج ب کہ وہ اپنی چال چل رہے تھے“(یوسف، آیت ۱۰۲)۔ اسی طرح حضرت نوح کا مفصل قصّہ بیان کر کے فرمایا   تِلْکَ مِنْ اَنْبَآءِ الْغَیْبِ نُوْحَیْھَآ اِلَیْکَ، مَا کُنْتَ تَعْلَمُھَآ  اَنْتَ وَلَا قَوْمُکَ مِنْ قَبْلِ ھٰذَا، ”یہ باتیں غیب کی خبروں میں سے ہیں جو ہم تم پر وحی کر رہے ہیں، تمہیں اور تمہاری قوم کو اس سے پہلے ان کا کوئی علم نہ تھا“(ہود۔ آیت ۴۹)۔ اِس چیز کی بار بار تکرار  سے یہ بات صاف ظاہر ہوتی ہے کہ قرآن مجید اپنے من جانب اللہ ہونے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم  کے رسول اللہ ہونے پر جو بڑے بڑے دلائل دیتا تھا ان میں سے ایک یہ دلیل  تھی کہ سینکڑوں ہزاروں برس پہلے کے گزرے ہوئے واقعات کی جو تفصیلات ایک اُمّی کی زبان سے بیان ہو رہی ہیں ان کے علم کا کوئی ذریعہ اُس کے پاس وحی کے سوا نہیں ہے۔ اور یہ چیز اُن اہم اسباب میں سے ایک تھی جن کیبنا پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہم عصر لوگ اس بات پر یقین لاتے چلے جا رہے تھے  کہ واقعی آپؐ اللہ کے نبی ہیں اور آپؐ پر وحی آتی ہے، اب یہ ہر شخص خود تصور کر سکتا ہے کہ اسلامی تحریک کے مخالفین کے لیے اُس زمانے میں اِس چیلنج کی تردید کرنا کیسی کچھ اہمیت رکھتا  ہو گا،  اور انہوں نے اس کے خلاف ثبوت فراہم کرنے کی کوششوں میں کیا  کسر اُٹھا رکھی ہو گی۔ نیز یہ بھی اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اگر معاذ اللہ اِس چیلنج  میں ذرا سی  بھی کوئی کمزوری ہوتی تو اس کو غلط ثابت کرنے کے لیے شہادتیں فراہم کرنا ہم عصر لوگوں کے لیے مشکل نہ  ہوتا۔