یہ تینوں باتیں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت میں پیش کی گئی ہیں۔ جس وقت یہ باتیں کہی گئی تھی اس وقت مکہ کے تمام سردار اور عام کفار اس بات پر پوری طرح تلے ہوئے تھے کہ کسی نہ کسی طرح آپ کو غیر نبی ۔ اور معاذ اللہ جھوٹا مدعی ثابت کر دیں۔ ان کی مدد کے لیے یہود کے علماء اور عیسائیوں کے راہب بھی حجاز کی بستیوں میں موجود تھے۔ اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کہیں عالم بالا سے آکر یہ قرآن نہیں سنا جاتے تھے۔ بلکہ اُسی مکہ کے رہنے والے تھے اور آپ کی زندگی کا کوئی گوشہ آپ کی بستی اور آپ کے قبیلے کے لوگوں سے چھپا ہوا نہ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ جس وقت اس کھلے چیلنج کے انداز میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے ثبوت کے طور پر یہ تین باتیں ارشاد فرمائی گئی ، اس وقت مکے، اور حجاز، اور پورے عرب میں کوئی ایک شخص بھی اٹھ کر وہ بیہودہ بات نہ کہہ سکا جو آج کے مستشرقین کہتے ہیں۔ اگر چہ جھوٹ گھڑ نے میں وہ لوگ اِن سے کچھ کم نہ تھے، لیکن ایسا درو غِ فروغ آخر وہ کیسے بول سکتے تھے جو ایک لمحہ کے لیے بھی نہ چل سکتا ہو۔ وہ کیسے کہتے کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم، تم فلاں فلاں یہودی عالموں اور عیسائی راہبوں سے یہ معلومات حاصل کر لائے ہو، کیونکہ پورے ملک میں وہ اِس غرض کے لیے کسی کا نام نہیں لے سکتے تھے۔ جس کا نام بھی وہ لیتے ، فوراً ہی یہ ثابت ہو جاتا کہ اس سے آنحضرتؐ نے کوئی معلومات حاصل نہیں کی ہیں۔ وہ کیسے کہتے کہ اے محمد ؐ، تمہارے پاس پچھلی تاریخ اور علوم آداب کی ایک لائبریری موجود ہے جس کی مدد سے تم یہ ساری تقریریں کر رہے ہو، کیونکہ لائبریری تو درکنار، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے آس پاس کہیں سے وہ ایک کاغذ کا پرزہ بھی بر آمد نہیں کر سکتے تھے جس میں یہ معلومات لکھی ہوئی ہوں ۔ مکے کا بچہ بچہ جانتا تھا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم لکھے پڑھے آدمی نہیں ہیں، اور کوئی یہ بھی نہیں کہہ سکتا تھا کہ آپ نے کچھ مترجمین کی خدمات حاصل کر رکھی ہیں جو عبرانی اور سُریانی اور یونانی کتابوں کے ترجمے کر کرکے آپ کو دیتے ہیں۔ پھر ان میں سے کوئی بڑے سے بڑا بے حیا آدمی بھی یہ دعویٰ کرنے کی جرأت نہ رکھتا تھا کہ شام و فلسطین کے تجارتی سفروں میں آپ یہ معلومات حاصل کر آئے تھے۔ کیونکہ یہ سفر تنہا نہیں ہوئے تھے۔ مکے ہی کے تجارتی قافلے ہر سفر میں آپ کےساتھ لگے ہوتے تھے۔ اگر کوئی اس وقت ایسا دعویٰ کرتا تو سینکڑوں زندہ شاہد یہ شہادت دے دیتے کہ وہاں آپ نے کسی سے کوئی درس نہیں لیا۔ اور آپ کی وفات کے بعد تو دوسال کے اندر ہی رومیوں سے مسلمان بر سر پیکا ر ہوگئے تھے۔ اگر کہیں جھوٹوں بھی شام و فلسطین میں کسی عیسائی راہب یا یہودی ربِّ سے حضور ؐ نے کوئی مذاکرہ کیا ہوتا تو رومی سلطنت رائی کا پہاڑ بنا کر یہ پروپیگنڈا کرنے میں ذرا دریغ نہ کرتی محمد صلی اللہ علیہ وسلم، معاذ اللہ سب کچھ یہاں سے سیکھ گئے تھے اور مکے جا کر نبی بن بیٹھے۔ غرض ، اُس زمانے میں جبکہ قرآن کا یہ چیلنچ قریش کے کفار و مشرکین کے لیے پیامِ موت کی حیثیت رکھتا تھا، اور اس کو جھٹلانے کی ضرورت موجود ہ زمانے کے مستشرقین کی بہ نسبت اُن لوگوں کو بدر جہاز یادہ لاحق تھی ، کوئی شخص بھی کہیں سے ایسا کوئی مواد فراہم کر کے نہ لا سکا جس سے وہ یہ ثابت کر سکتا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس وحی کے سوا اِن معلومات کے حصول کا کوئی دوسرا ذریعہ موجود ہے جس کی نشان دہی کی جا سکتی ہو۔ |