اس رکوع کو چھاپیں

سورة القصص حاشیہ نمبر۷۹

سیاق کلام سے ظاہر ہے کہ حبشی عیسائیوں کے ایمان و اسلام کا ذکر کرنے کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے یہ فقرہ ارشاد فرمانے سے مقصود دراصل کفار مکہ کو شرم دلانا تھا۔ کہنا یہ تھا کہ بد نصیبو، ماتم کرو اپنی حالت پر  کہ دوسرے  کہاں کہاں سے آکر اس نعمت سے مستفید ہو رہے ہیں اور تم اس چشمہ فیض سے ، جو تمہارے اپنے گھر میں بہ رہا ہے، محروم رہے جاتے ہو۔ لیکن کہا گیا ہے اِس انداز سے کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم تم چاہتے ہو کہ میری قوم کے لوگ، میرے  بھائی بندو، میرے عزیز اقارب، اِس آبِ حیات سے بہرہ مند ہوں ، لیکن تمہارے چاہنے سے کیا ہوتا ہے ، ہدایت تو اللہ کے اختیار میں ہے، وہ اس نعمت سے انہی لوگوں کو فیض یاب کرتا ہے جن میں وہ قبول ہدایت کی آمادگی پاتا ہے ، تمہارے رشتہ داروں میں اگر یہ جوہر موجود نہ ہو تو انہیں یہ فیض کیسے نصیب ہو سکتا ہے۔

           صحیحین کی روایت ہے کہ یہ آیت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا ابو طالب کے معاملہ میں نازل ہوئی ہے۔ ان کا جب آخری وقت آیا تو حضورؐ نے اپنی حد تک انتہائی کوشش کی کہ وہ کلمہ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہ پر ایمان لے آئیں تا کہ ان کا خاتمہ بالخیر ہو، مگر انہوں نے ملتِ عبد المطلب پر ہی جان دینے کو ترجیح دی۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا انک لا تھدی من اجبت۔ لیکن محدثین و مفسرین کا یہ طریقہ معلوم و معروف ہے کہ ایک آیت عہد نبوی کے جس معامہ پر چسپاں ہوتی ہے اسے وہ آیت کی شانِ نزول کے طور پر بیان کر تے ہیں۔ اس لیے اس روایت اور اِسی مضمون کی اُن  دوسری روایات سے جو ترمذی اور مسند احمد وغیرہ میں حضرات بو ہریرہؓ، ابن عباسؓ، ابن عمرؓ وغیرہ ہم سے مروی ہیں۔ لازماً یہی نتیجہ نہیں نکلتا کہ سورہ قصص کی   یہ آیت ابو طالب کی وفات کے وقت نازل ہوئی تھی۔ بلکہ ان سے صرف یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس آیت کے مضمون کی صداقت سب سے زیادہ اس موقع پر ظاہر ہوئی ۔اگرچہ حضورؓ کی دلی خواہش تو ہر بندہ خدا کو راہِ راست پر لانے کی تھی۔ لیکن سب سے بڑھ کر اگر کسی شخص کا کفر پر خاتمہ حضورؐ کو شاق ہو سکتا تھا، اور ذاتی محبت و تعلق کی بنا پر سب سے زیادہ کسی شخص کی ہدایت کے آپ آرزو مند ہو سکتے تھے ، تو وہ ابو طالب تھے۔ لیکن جب ان کو بھی ہدایت دینے پر آپ قادر نہ ہوئے تو یہ بات  بالکل ظاہر ہو گئی کہ کسی کو ہدایت بخشنا اور کسی کو اس سے محروم رکھنا نبی کے بس کی بات نہی ہے۔یہ معاملہ بالکل اللہ کے ہاتھ میں ہے، اور اللہ کے ہاں یہ دولت کسی رشتہ د ا ری و برادری کی بنا پر نہیں بلکہ آدمی کی قبولیت و استعداد اور مخلصانہ صداقت پسنی کی بنا پر عطا ہوتی ہے۔