اس رکوع کو چھاپیں

سورة القصص حاشیہ نمبر۸۲

یہ ان کے عذر کا دوسرا جواب ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ جس مال و دولت اور خوشحالی پر تم اِترائے ہوئے ہو، اور جس کے کھوئے جانے کے خطرے سے باطل پر جمنا اور حق سے منہ موڑنا چاہتے ہو، یہی چیز کبھی عاد اور ثمود اور سبا اور مدین  اور قوم لوط کے لوگوں کو بھی حاصل تھی۔ پھر کیا یہ چیز ان کو تباہی سے بچا سکی؟ آخر معیارِ زندگی کی بلندی ہی تو ایک مقصُود نہیں ہے کہ آدمی حق و باطل سے بے نیاز ہو کر بس اسی کے پیچھے پڑا رہے اور راہِ راست کو صرف اس لیے قبول کرنے سے انکار کر دے کہ ایسا  کرنے سے یہ گوہر مقصود ہاتھ سے جانے کا خطرہ ہے ۔ کہا تمہارے پاس اس کی کوئی ضمانت ہے کہ جن گمراہیوں اور بدکاریوں نے پچھلی قوموں کو تباہ کیا انہی پر اصرار کر کے تم بچے رہ جاؤ گے اور ان کی طرح تمہاری شامت کبھی نہ آئے گی؟