اس رکوع کو چھاپیں

سورة القصص حاشیہ نمبر۸۷

یعنی ہم نے زبر دستی اِن کو گمراہ نہیں کیا تھا۔ ہم نے نہ اِن سے بینائی اور سماعت سلب کی تھی، نہ ان سے سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں چھین لی تھی، اور نہ ایسی ہی کوئی صورت پیش آئی تھی کہ  یہ توارہِ راست کی طرف جانا چاہتے ہوں مگر ہم ان کا ہاتھ پکڑ کر جبراً انہیں غلط راستے پر کھینچ لے گئے ہوں۔ بلکہ جس طرح ہم خود اپنی مرضی سے گمراہ ہوئے تھے اسی طرح اِن کے سامنےبھی ہم نے گمراہی پیش کی اور انہوں نے اپنی مرضی سے اس کو قبول کیا۔ لہٰذا ہم ان کی ذمہ داری قبول نہیں کرتے۔ ہم اپنے فعل کے ذمہ دار ہیں اور یہ اپنے فعل کے ذمہ دار۔
          یہاں یہ لطیف نکتہ  قابلِ توجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سوال تو کرے گا شریک ٹھیرانے والوں  سے ۔ مگر قبل اس کے کہ یہ کچھ بولیں، جواب دینے لگیں گے وہ جن کو شریک ٹھیرا یا گیا تھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب عام مشرکین سے یہ سوال کیا جائے گا تو ان کے لیڈر اور پیسوا محسوس کریں گے کہ اب آگئی ہماری شامت ۔ یہ ہمارے سابق پروضرور کہیں گے کہ یہ لوگ ہماری  گمراہی کے اصل ذمہ دار ہیں۔ اس لیے پیرووں کے بولنے سے پہلے وہ خود سبقت  کر کے اپنی صفائی پیش کرنی شروع کر دیں گے۔