اس رکوع کو چھاپیں

سورة القصص حاشیہ نمبر۹۰

یہ ارشاد در اصل شرک کی تردید  میں ہے ۔ مشرکین نے اللہ تعالیٰ کی مخلوقات میں سے جو بے شمار معبود اپنے لیے بنا لیے ہیں، اور ان کو اپنی طرف سے  جو اوصاف، مراتب اور مناصب سونپ رکھے ہیں ، اس پر اعتراض کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اپنے پیدا کیے ہوئے انسانوں، فرشتوں ، جِنوں اور دوسرے بندوں میں سے ہم  خود جس کو جیسے چاہتے ہیں  اوصاف، صلاحیتیں اور طاقتیں بخشتے ہیں اور جو کام جس سے لینا چاہیں مشکل کشا ، جیسے چاہیں گنج بخش  اور جسے چاہیں فریاد رس قرار دے لیں؟ جسے چاہیں بارش برسانے کا مختار، جسے چاہیں روزگار یا اولاد بخشنے  والا، جسے چاہیں بیماری و صحت کا مالک بنا دیں؟ جسے چاہیں میری خدائی کے کسی حصے کا فرماں روا ٹھیرا لیں؟ اور میرے  اختیارات میں جو کچھ جس کو چاہیں سونپ دیں؟ کوئی فرشتہ ہو یا جن یا نبی یا ولی ، بہر حال جو بھی ہے ہمارا پیدا کیا ہوا ہے۔ جو کمالات بھی کسی کو ملے ہیں ہماری عطا وبخشش سے ملے ہیں۔ اور جو خدمت بھی ہم نے جس سے لینی چاہی  ہے لی ہے ۔ اس برگزیدگی کے یہ معنی آخر کیے ہوگئے کہ یہ بندے بندگی کے مقام سے اٹھا کر خدائی کے مرتبے  پر پہنچا دیے جائیں اور خدا کو چھوڑ کر ان کے آگے سر نیاز جھکا دیا جائے، ان کو مدد کے لیے پکارا جانے لگے، ان سے حاجتیں طلب کی جانے لگیں، انہیں قسمتوں کا بنانے اور بگاڑنے والا سمجھ  لیا جائے، اور انہیں خدائی صفات و اختیارات کا حامل قرار دے دیا جائے؟