اس رکوع کو چھاپیں

سورة القصص حاشیہ نمبر۹١

اس سلسلہ کلام میں یہ بات جس مقصد  کے لیے ارشاد فرمائی گئی ہے وہ یہ ہے کہ ایک شخص یا گروہ دنیا میں لوگوں کے سامنے یہ دعویٰ کر سکتا ہے کہ جس گمراہی  کو اس نے اختیار کیا ہے اس کی صحت پر وہ بڑے معقول وجوہ سے مطمئن ہے ، اور اس کے خلاف جو دلائل دیے گئے ہیں ان سے فی الحقیقت اس کا اطمینان نہیں ہوا ہے، اور اس گمراہی کو اس نے کسی بُرے جذبے سے نہیں بلکہ خالص نیک نیتی کے ساتھ اختیار کیا ہے ، اور اس کے سامنے کبھی کوئی ایسی چیز نہیں آئی ہے جس ے اس کی غلطی اس پر واضح ہو۔ لیکن اللہ تعالیٰ کے سامنے اس کی یہ بات نہیں چل سکتی۔ وہ صرف ظاہر ہی کو نہیں دیکھتا۔ اس کے سامنے تو آدمی کے دل و دماغ کا ایک ایک گوشہ کھلا ہوا ہے ۔ وہ اس کے علم اور احساسات اور جذبات اور خواہشات اور نیت اور ضمیر، ہر چیز کو براہ ِ راست جانتا ہے ۔ اس کو معلوم ہے کہ کس شخص کو کس کس وقت کن ذرائع سے تنبیہ ہوئی ، کن کن راستوں سے حق پہنچا، کس کس طریقے سے باطل کا باطل ہونا اس پر کھلا، اور پھر وہ اصل محرکات کیا تھے جن کی بنا پر اس نے اپنی گمراہی کو ترجیح دی اور حق سے منہ موڑا۔