اس رکوع کو چھاپیں

سورة العنکبوت حاشیہ نمبر١

جن حالات میں یہ بات ارشاد فرمائی گئی ہے وہ یہ تھے کہ مکہ ٔ معظمہ میں جو شخص اسلام قبول کرتا تھا اس پر آفات اور مصائب اور مظالم کا ایک طوفان ٹوٹ پڑتا تھا ۔ کوئی غلام یا غریب ہوتا تو اس کو بری طرح مارا پیٹا جاتا اور سخت ناقابل برداشت اذیتیں دی جاتیں۔ کوئی دوکاندار یا کاریگر ہوتا تو اس کی روزی کے دروازے بند کر دیے جاتے یہاں تک کہ بھوکوں مرنے کی نوبت آجاتی۔ کوئی کسی با اثر خاندان کا آدمی ہوتا تو اس کے اپنے خاندان کے لوگ اس کو طرح طرح سے تنگ کرتے اور اس کی زندگی اَجیرن کر دیتے تھے۔ ان حالات نے مکّے میں ایک سخت خوف اور دہشت  کا ماحول پیدا کر  دیا تھا جس کی وجہ سے بہت سے لوگ تو  نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کے قائل ہو جانے کے باوجود  ایمان لاتے ہوئے ڈرتے تھے ، اور کچھ لوگ ایمان لانے کے بعد جب دردناک اذیتوں سے دوچار ہوتے تو پست ہمت ہو کر کفار کے آگے گھٹنے ٹیک دیتے تھے۔ ان حالات نے اگرچہ  راسخ الایمان صحابہ کے عزم و ثبات میں کوئِ تزلزل پیدا نہ کیا تھا، لیکن انسانی فطرت کے تقاضے سے اکثر ان پر بھی ایک شدید اضطراب کی کیفیت طاری ہو جاتی تھی۔ چنانچہ اسی کیفیت کا ایک نمونہ حضرت خَبّاب بن اَرَت کی وہ روایت  پیش کرتی ہے جو بخاری، ابوداؤد اور نسائی نے نقل کی ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ جس زمانے میں مشرکین کی سختیوں سے ہم بری طرح تنگ آئے ہوئے تھے، ایک روز میں نے دیکھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کعبہ کی دیوار کے سائے میں تشریف رکھتے ہیں۔ میں نے حاضر ہو کر عرض کیا یا رسول اللہ ، آپ ہمارے لیے دعا نہیں فرماتے؟  یہ سُن کر آپ کا چہرہ جو ش اور جذبے سے سُرخ ہو گیا اور آپؐ نے فرمایا تم سے پہلے جو اہلِ ایمان گزر چکے ہیں ان پر اس سے زیادہ سختیاں توڑی گئی ہیں۔ ان میں سے  کسی کو زمین میں گڑھا کھود کر بٹھایا جاتا اور اس کے سر پر آرہ چلا کر اس کے دو ٹکڑے کر ڈالے جاتے۔ کسی کے جوڑوں پر لوہ کے کنگھے گھسے جاتے تھے تا کہ وہ ایمان سے باز آجائے۔ خدا کی قسم، یہ کام پورا ہو کر رہے گا یہاں تک کہ ایک شخص صَنعاء سے حضر موت تک بے کھٹکے سفر کرے گا اور اللہ کے سوا کوئی نہ ہو گا جس کا وہ خوف کرے۔
اس اضطرابی کیفیت کو ٹھنڈے صبر و تحمل میں تبدیل کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ اہلِ ایمان کو سمجھاتا ہے کہ ہمارے جو وعدے دنیا اور آخرت کی کامرانیوں کے لیے ہیں، کوئی شخص مجرّد زبانی دعوائے ایمان کر کے ان کا مستحق نہیں ہو سکتا ، بلکہ ہر مدعی کو لازماً آزمائشوں کی بھٹی سے گزرنا ہو گا تا کہ وہ اپنے دعوے کی صداقت کا ثبوت دے۔ ہماری جنت اِتنی سستی نہیں ہے ، اور نہ دنیا ہی میں ہماری خاص عنایات ایسی ارزاں ہیں کہ تم بس زبان سے ہم پر ایمان لانے کا اعلان کرو اور ہم وہ سب کچھ تمہیں بخش دیں۔ ان کے لیے تو امتحان شرط ہے۔ ہماری خاطر مشقتیں اُٹھانی ہوں گی۔ جان و مال کا زیاں برداشت کرنا ہو گا۔ طر ح طرح کی سختیاں جھیلنی ہوں گی ۔ خطرات ، مصائب اورمشکلات کا مقابلہ کرنا ہو گا ۔ خوف سے بھی آزمائے جاؤگے اور لالچ سے بھی۔ ہر چیز جسے عزیز و محبوب رکھتے ہو، ہماری رضا پر اسے قربان کرنا پڑے گا، اور ہر تکلیف جو تمہیں  ناگوار ہے ، ہمارے لیے برداشت کرنہ ہو گی۔ تب کہیں یہ بات کھلے گی کہ ہمیں ماننے کا جو دعویٰ تم نے کیا تھا وہ سچا تھا یا جھوٹا۔ یہ بات قرآن مجید میں ہر اُس مقام پر کہی گئی ہے جہاں مصائب و شدائد کے ہجوم میں مسلمانوں پر گھبراہٹ کا عالم طاری ہُوا ہے۔ ہجرت کے بعد مدینے کی ابتدائی زندگی میں جب معاشی مشکلات، بیرونی خطرات ، اور یہود و منافقین کی داخلی شرارتوں نے اہلِ ایمان کو سخت پریشان کر رکھا تھا،  اس وقت فرمایا:

اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تَدْخُلُوْ ا الْجَنَّۃَ وَلَمَّا یَاْتِکُمْ مَّثَلُ الَّذِیْنَ خَلَوْ ا مِنْ قَبْلِکُمْ ، مَّسَّتْہُمُ الْبَاْ سَآ ءُ وَالضَّرَّآءُ وَزُلْزِ لُوْا حَتّٰی یَقُوْلَ الرَّسُوْلُ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَہٗ مَتٰی نَصْرُ اللہِ ط اَلَآ اِنَّ نَصْرَ اللہِ قَرِیْب ٌo
کیا تم نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ تم جنت میں داخل ہو جاؤ گے حالانکہ ابھی تم پر وہ حالات نہیں گزرے  جو تم سے پہلے گزرے ہوئے (اہلِ ایمان) پر گزر چکے ہیں؟ ان پر سختیاں اور تکلیفیں آئیں اور وہ بلا مارے گئے۔ یہاں تک کہ رسول اور  اور اس کے ساتھ ایمان لانے والے لوگ پکار اُٹھے کہ اللہ کی مدد کب آئے گی(تب انہیں مژدہ سنایا گیا) کہ خبر دار رہو ، اللہ کی مدد قریب ہے۔

اِسی طرح جنگِ اُحُد کے بعد جب مسلمانوں پر پھر مصائب کا ایک سخت دور آیا تو ارشاد ہوا:

اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تَدْخُلُوْ ا الْجَنَّۃَ وَلَمَّا یَعْلَمِ اللہُ الَّذِیْنَ جَا ھَدُوْ ا مِنْکُمْ وَیَعْلَمَ الصّٰبِرِیْنَ o
کیا تم نے یہ سمجھ رکھا  ہے کہ جنت میں داخل ہو جاؤ گے ، حالانکہ ابھی اللہ نے یہ تو دیکھا ہی نہیں کہ تم میں سے جہاد میں جان لڑانے والے اور پا  مردی دکھانے والے کون ہیں؟

قریب قریب یہی مضمون سورۂ آلِ عمران ، آیت ۱۷۹۔ سورۂ توبہ آیت۱۶ اور سورۂ محمدؐ ، آیت ۳۱ میں بھی بیان ہُوا ہے ۔ ان ارشادات سے اللہ تعالیٰ نے یہ حقیقت مسلمانوں  کے ذہن نشین فرمائی ہے کہ آزمائش ہی وہ کسوٹی ہے جس سے کھوٹا اور کھرا پرکھا جاتا ہے ، کھوٹا خود بخود اللہ تعالیٰ کی راہ سے ہٹ جاتا ہے ، اور کھرا چھانٹ لیا جاتا ہے تا کہ اللہ کے اُن انعامات سے سرفراز ہو جو صرف صاد ق الایمان  لوگوں کا ہی حصّہ ہیں۔