جن حالات میں یہ بات ارشاد فرمائی گئی ہے وہ یہ تھے کہ مکہ ٔ معظمہ میں جو شخص اسلام قبول کرتا تھا اس پر آفات اور مصائب اور مظالم کا ایک طوفان ٹوٹ پڑتا تھا ۔ کوئی غلام یا غریب ہوتا تو اس کو بری طرح مارا پیٹا جاتا اور سخت ناقابل برداشت اذیتیں دی جاتیں۔ کوئی دوکاندار یا کاریگر ہوتا تو اس کی روزی کے دروازے بند کر دیے جاتے یہاں تک کہ بھوکوں مرنے کی نوبت آجاتی۔ کوئی کسی با اثر خاندان کا آدمی ہوتا تو اس کے اپنے خاندان کے لوگ اس کو طرح طرح سے تنگ کرتے اور اس کی زندگی اَجیرن کر دیتے تھے۔ ان حالات نے مکّے میں ایک سخت خوف اور دہشت کا ماحول پیدا کر دیا تھا جس کی وجہ سے بہت سے لوگ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کے قائل ہو جانے کے باوجود ایمان لاتے ہوئے ڈرتے تھے ، اور کچھ لوگ ایمان لانے کے بعد جب دردناک اذیتوں سے دوچار ہوتے تو پست ہمت ہو کر کفار کے آگے گھٹنے ٹیک دیتے تھے۔ ان حالات نے اگرچہ راسخ الایمان صحابہ کے عزم و ثبات میں کوئِ تزلزل پیدا نہ کیا تھا، لیکن انسانی فطرت کے تقاضے سے اکثر ان پر بھی ایک شدید اضطراب کی کیفیت طاری ہو جاتی تھی۔ چنانچہ اسی کیفیت کا ایک نمونہ حضرت خَبّاب بن اَرَت کی وہ روایت پیش کرتی ہے جو بخاری، ابوداؤد اور نسائی نے نقل کی ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ جس زمانے میں مشرکین کی سختیوں سے ہم بری طرح تنگ آئے ہوئے تھے، ایک روز میں نے دیکھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کعبہ کی دیوار کے سائے میں تشریف رکھتے ہیں۔ میں نے حاضر ہو کر عرض کیا یا رسول اللہ ، آپ ہمارے لیے دعا نہیں فرماتے؟ یہ سُن کر آپ کا چہرہ جو ش اور جذبے سے سُرخ ہو گیا اور آپؐ نے فرمایا تم سے پہلے جو اہلِ ایمان گزر چکے ہیں ان پر اس سے زیادہ سختیاں توڑی گئی ہیں۔ ان میں سے کسی کو زمین میں گڑھا کھود کر بٹھایا جاتا اور اس کے سر پر آرہ چلا کر اس کے دو ٹکڑے کر ڈالے جاتے۔ کسی کے جوڑوں پر لوہ کے کنگھے گھسے جاتے تھے تا کہ وہ ایمان سے باز آجائے۔ خدا کی قسم، یہ کام پورا ہو کر رہے گا یہاں تک کہ ایک شخص صَنعاء سے حضر موت تک بے کھٹکے سفر کرے گا اور اللہ کے سوا کوئی نہ ہو گا جس کا وہ خوف کرے۔ اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تَدْخُلُوْ ا الْجَنَّۃَ وَلَمَّا یَاْتِکُمْ مَّثَلُ الَّذِیْنَ خَلَوْ ا مِنْ قَبْلِکُمْ ، مَّسَّتْہُمُ الْبَاْ سَآ ءُ وَالضَّرَّآءُ وَزُلْزِ لُوْا حَتّٰی یَقُوْلَ الرَّسُوْلُ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَہٗ مَتٰی نَصْرُ اللہِ ط اَلَآ اِنَّ نَصْرَ اللہِ قَرِیْب ٌo اِسی طرح جنگِ اُحُد کے بعد جب مسلمانوں پر پھر مصائب کا ایک سخت دور آیا تو ارشاد ہوا: اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تَدْخُلُوْ ا الْجَنَّۃَ وَلَمَّا یَعْلَمِ اللہُ الَّذِیْنَ جَا ھَدُوْ ا مِنْکُمْ وَیَعْلَمَ الصّٰبِرِیْنَ o |