اس رکوع کو چھاپیں

سورة العنکبوت حاشیہ نمبر١۰۲

یعنی اس کی حقیقت بس اتنی ہی ہے جیسے بچے تھوڑی دیر کے لیے کھیل کود لیں اور پھر اپنے اپنے گھر کو سدھار یں۔ یہاں جو بادشاہ بن گیا ہے وہ حقیقت میں بادشاہ نہیں ہے بلکہ صرف بادشاہی کا ڈراما کر رہا ہے۔ ایک وقت آتا ہے جب اس کا یہ کھیل ختم ہو جاتا ہے اور اسی بے سرو سامانی کے ساتھ وہ تخت ِ شاہی  سے رخصت ہوتا ہے جس کے ساتھ وہ اس دنیا میں آیا تھا۔ اسی طرح زندگی کی کوئی شکل بھی یہاں مستقل اور پائیدا ر نہیں ہے ۔ جو جس حال میں بھی ہے عارضی طور پر ایک محدود مدت کے لیے ہے۔ اس چند روزہ زندگی کی کامرانیوں پر جو لوگ مر ے مٹتے ہیں اور انہی کے لیے ضمیر و ایمان  کی بازی لگا کر کچھ عیش و عشرت کا سامان اور کچھ شوکت و حشمت کے ٹھا ٹھ فراہم کر لیتے ہیں ان کی یہ ساری حرکتیں دل کے بہلا وے سے زیادہ کچھ نہیں ہیں۔ اِن کھلونوں سے اگر وہ دس بیس یا ساتھ ستر سال دل بہلا لیں اور پھر موت کے دروازے سے خالی ہاتھ گزر کر اُس عالم میں پہنچیں جہاں کی دائمی و ابدی زندگی میں ان کا یہی کھیل بلائے بے درماں ثابت ہو تو آخر اِس طفل تسلی کا فائدہ  کیا ہے؟