اس رکوع کو چھاپیں

سورة العنکبوت حاشیہ نمبر١۷

ان کے اس قول کا مطلب یہ تھا کہ اول تو زندگی بعد موت اور حشر و نشر اور حساب و جزا ء کی یہ باتیں سب ڈھکوسلا ہیں۔ لیکن اگر بالفرض کوئی دوسری زندگی ہے اور اس میں  کوئی باز پرس  بھی ہونی ہے ، تو ہم ذمہ لیتے ہیں کہ خدا کے سامنے ہم سارا عذاب ثواب اپنی گردن پر لے لیں گے۔ تم ہمارے کہنے سے اس نئے دین کو چھوڑ دو اور اپنے دین آبائی کی طرف واپس آجاؤ۔ روایات میں متعدد سردارانِ قریش کے متعلق یہ مذکور ہے کہ ابتداءً جو لوگ اسلام قبول کرتے تھے ان سے مل کر یہ لوگ اسی طرح کی باتیں کیا کرتے تھے ۔ چنانچہ حضرت عمر ؓ کے متعلق بیان کیا گیا ہے کہ جب وہ ایمان لائے تو ابو سفیان اور حرب بن اُمیّہ بن  خَلف نے ان سے مل کر بھی یہی کہا تھا۔