اس رکوع کو چھاپیں

سورة العنکبوت حاشیہ نمبر١۹

یعنی وہ خدا کے ہاں اگرچہ دوسروں کا بوجھ تو نہ اٹھائیں گے ، لیکن دوہرا بوجھ اُٹھانے سے بچیں گے بھی نہیں۔ ایک بوجھ ان پر خود گمراہ ہونے کا لدے گا، اور دوسرا بوجھ دوسروں کو گمراہ کرنے کا بھی ان پر لادا جائے گا۔ اس بات کو یوں سمجھیے کہ ایک شخص خود بھی چوری کرتا ہے اور کسی دوسرے شخص سے بھی کہتا ہے کہ وہ اس کے ساتھ چوری کے کام میں حصہ لے۔ اب اگر وہ دوسرا شخص اس کے کہنے سے چوری کرے گا تو کوئی عدالت اسے اس بنا پر نہ چھوڑدے گی کہ اس نے دوسرے کے کہنے سے جرم کیا ہے۔ چوری کی سزا تو بہرحال اسے ملے گی اور کسی اصولِ انصاف کی رو سے بھی یہ درست نہ ہو گا کہ اسے چھوڑ کر اس کے بدلے کی سزا اس سے پہلے چور کو دے دی جائے جس نے اسے بہکا کر چوری کے راستے پر ڈالا تھا۔ لیکن وہ پہلا چور اپنے جرم کے ساتھ اِس  جرم  کی سزا بھی پائے گا کہ اس نے خود چوری کی سو کی، ایک دوسرے شخص کو بھی اپنے ساتھ چور بنا ڈالا۔ قرآن مجید میں ایک دوسرے مقام پر اس قاعدے کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: لِیَحْمِلُوْآ اَوْزَادَھُمْ کَا مِلَۃً یَّوْمَ الْقِیٰمَۃِ وَمِنْ اَوْزَارِ الَّذِیْنَ یُضِلُّوْ نَھُمْ بِغَیْرِ عِلْمٍ (النحل۔ آیت ۲۵)۔ ” تا کہ وہ قیامت کے روز اپنے بوجھ بھی پورے پورے اٹھائیں اور اُن لوگوں کے بوجھوں کا بھی ایک حصّہ  اٹھائیں جن کو وہ علم کے بغیر گمراہ کرتے ہیں۔“ اور اسی قاعدے کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں بیان فرمایا ہے کہ من دعا الیٰ  ھدی کان لہ من الاجر مثل اجور من تبعہ لا ینقص ذٰلک من اجورھم شیًٔا و من دعا الیٰ ضلالۃ کان علیہ من الاثم مثل اٰثام من تبعہ لا ینقص ذٰلک من اٰثامھم شیًٔا۔ (مسلم) ”جس شخص نے راہِ راست کی طرف دعوت دی اس کو ان سب لوگوں کے اجر کے برابر اجر ملے گا جنہوں نے اس کی دعوت پر راہِ راست اختیار کی بغیر اس کے کہ اُن کے اجروں میں کوئی کمی ہو۔ اور جس شخص نے گمراہی  کی طرف دعوت دی اس پر ان سب لوگوں کے گناہوں کے برابر گناہ ہو گا جنہوں نے اس کی پیروی کی بغیر اس کے کہ اُن کے گناہوں میں کوئی  کمی ہو۔“