اس رکوع کو چھاپیں

سورة العنکبوت حاشیہ نمبر۲۲

اس کا مطلب یہ  نہیں ہے کہ حضرت نوحؑ کی عمر ساڑھے نو سو سال تھی۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ نبوت کے منصب پر سرفراز ہونے کے بعد سے طوفان تک پورے ساڑھے نو سو برس حضرت نوحؑ اس ظالم و گمراہ قوم کی اصلاح کے لیے سعی فرماتے رہے ، اور اتنی طویل مدت تک ان کی زیادتیاں برداشت کرنے پر بھی انہوں نے ہمت نہ ہاری ۔ یہی چیز یہاں بیان کرنی مقصود ہے۔ اہل ِ ایمان کو بتایا جا رہا ہے کہ تم کو تو ابھی پانچ سات برس ہی ظلم و ستم سہتے  اور ایک گمراہ قوم کی ہٹ دھرمیاں برداشت کرتے  گزرے ہیں ۔ ذرا ہمارے اس بندے کے صبر و ثبات اور عزم و استقلال کو دیکھو جس نے مسلسل ساڑھے نو صدیوں تک ان شدائد کا مقابلہ کیا۔
حضرت نوحؑ کی عمر کے بارے میں قرآن مجید اور بائیبل کے بیانات ایک دوسرے سے مختلف ہیں ۔ بائیبل کا بیان ہے کہ ان کی عمر ساڑھے نو سو سال تھی ۔ وہ چھ  سو برس کے تھے جب طوفان آیا۔ اور اس کے بعد ساڑھے تین سو برس اور زندہ رہے ( پیدائش ،  باب ۷۔  آیت ۶۔  باب ۹۔ آیت ۲۸- ۲۹)۔ لیکن قرآن  کے بیان کی روسے  ان کی عمر کم از کم ایک ہزار سال ہونی چاہیے کیونکہ ساڑھے نو سو سال تو صرف وہ مدت ہے جو نبوت پر مامور ہونے  کے بعد سے طوفان برپا ہونے تک انہوں نے دعوت و تبلیغ میں صرف کی۔ ظاہر ہے کہ نبوت انہیں پختہ عمر کو پہنچنے کے بعد ہی ملی ہو گی۔ اور طوفان کے بعد بھی وہ کچھ مدت زندہ رہے ہوں گے۔
 یہ طویل عمر بعض لوگوں کے لیے ناقابلِ یقین ہے۔ لیکن خدا کی اِس خدائی میں عجائب کی کمی نہیں ہے ۔ جس طرف بھی آدمی نگاہ ڈالے ، اُس کی قدرت کے کرشمے غیر معمولی واقعات کی شکل میں نظر آجاتے ہیں۔ کچھ واقعات و حالات کا معمولاً ایک خاص صورت میں رونما ہوتے رہنا اس بات کے لیے کوئی دلیل نہیں ہے کہ اس معمول سے ہٹ کر کسی دوسری غیر معمولی صورت میں کوئی واقعہ رونما نہیں ہو سکتا ۔ اس طرح کے مفروضات کو توڑنے کے لیے کائنات کے ہر گوشے میں اور مخلوقات کی ہر صنف میں خلافِ معمول حالات و واقعات کی ایک طویل فہرست موجود ہے۔ خصوصیت کے ساتھ جو شخص خدا کے قادرِ مطلق ہونے کا واضح تصوّر اپنے ذہن میں رکھتا ہو وہ تو کبھی اس غلط فہمی میں نہیں پڑ سکتا کہ کسی انسان کو ایک ہزار برس یا اس سے کم و بیش عمر عطا کر دینا  اُس کے خدا کے لیے بھی ممکن نہیں ہے جو موت  و حیات کا خالق ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ  آدمی اگر خود چاہے تو ایک لمحہ کے لیے بھی زندہ نہیں رہ سکتا ۔ لیکن اگر خدا  چاہے تو جب تک وہ چاہے اسے زندہ رکھ سکتا ہے۔