اس رکوع کو چھاپیں

سورة العنکبوت حاشیہ نمبر۲۹

ان چند فقروں میں حضرت ابراہیمؑ  نے بُت پرستی  کے خلاف تمام معقول دلائل سمیٹ کر  رکھ دیے ہیں ۔ کسی کو معبود بنانے کے لیے لا محالہ کوئی معقول وجہ ہونی چاہیے۔ ایک معقول وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ وہ اپنی ذات میں معبودیت کا کوئی استحقاق رکھتا ہو۔ دوسری وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ وہ آدمی کا خالق ہو اور آدمی اپنے وجود کے لیے اس کا رہینِ منت ہو۔ تیسری وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ وہ آدمی کی پرورش کا سامان کرتا ہو اور اسے رزق ، یعنی متاعِ زیست بہم پہنچاتا ہو۔ چوتھی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ آدمی کا مستقبل اس کی عنایات سے وابستہ ہو اور آدمی کو اندیشہ ہو کہ اس کی ناراضی مول لے کر وہ اپنا انجام خراب کر لے گا ۔ حضرت ابراہیمؑ نے فرمایا کہ ان چاروں وجوہ میں سے کوئی وجہ بھی  بت پرستی کی حق میں نہیں ہے بلکہ ہر ایک خالص خدا پرستی کا تقاضا کرتی ہے۔ ” یہ محض بُت ہیں“ کہہ  کر اُنہوں نے پہلی وجہ کو ختم کر دیا، کیونکہ جو نِرا بُت ہو  اس کو معبود ہونے کا آخر کیا ذاتی استحقاق  حاصل ہو سکتا ہے۔ پھر یہ کہہ کر کہ  ” تم ان  کے خالق ہو“ دوسری وجہ بھی ختم کر دی ۔ اس کے بعد تیسری وجہ کو یہ فرما کر ختم کیا کہ وہ تمہیں کسی نوعیت کا کچھ بھی رزق نہیں دے سکتے۔ اور آخری بات یہ ارشاد فرمائی کہ تمہیں پلٹنا تو  خدا کی طرف ہے  نہ کہ اِن بتوں کی طرف، اس لیے تمہارا انجام اور تمہاری عاقبت سنوار نا یا بگاڑنا بھی اِن کے اختیار میں نہیں صرف خدا کے اختیار میں ہے۔ اس طرح شرک کا پورا ابطال  کر کے حضرت والا نے یہ بات ان پر واضح کر دی کہ جتنے وجوہ سے بھی انسان کسی کو معبود قرار دے سکتا ہے وہ سب کے سب اللہ وحدہٗ لاشریک کے سوا کسی کی عبادت کے مقتضی نہیں ہیں۔