اس رکوع کو چھاپیں

سورة العنکبوت حاشیہ نمبر۳

اصل الفاظ ہیں فَلَیَعْلَمَنَّ اللہُ ، جن کا لفظی ترجمہ یہ ہو گا  ”ضرور  ہے اللہ یہ معلوم کرے۔ اس پر ایک شخص یہ سوال کرتا ہے کہ اللہ کو تو سچے کی سچائی اور جھوٹے کا جھوٹ خود ہی معلوم ہے، آزمائش کر کے اسے معلوم کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ جب تک ایک شخس کے اندر کسی چیز کی صرف صلاحیت اور استعداد ہی ہوتی ہے ، عملاً اس کا ظہور نہیں ہو جاتا ، اس وقت تک ازروئے عدل و انصاف نہ تو وہ کسی جزاء کا مستحق ہو سکتا ہے نہ سزا کا۔ مثلاً ایک آدمی میں امین ہونے کی صلاحیت ہے اور ایک دوسرے میں خائن ہونے کی صلاحیت۔ ان دونوں پر جب تک آزمائش نہ آئے اور ایک سے امانت داری کا اور دوسرے سے خیانت داری کا  عملاً ظہور نہ ہو جائے ، یہ بات اللہ کے انصاف سے بعید ہے کہ وہ محض اپنے علمِ غیب کی بنا پر ایک کو امانت داری کا انعام دے دے اور دوسرے کو خیانت کی سزا دے ڈالے۔ اس لیے وہ علمِ سابق جو اللہ کو لوگوں کے اچھے اور بُرے اعمال سے پہلے اُن کی صلاحیتوں کے بارے میں اور اِن کے آئندہ طرزِ عمل کے بارے میں حاصل ہے ، انصاف کے اغراض کے لیے کافی نہیں ہے ۔ اللہ کے ہاں انصاف اِس علم کی بنیاد پر نہیں ہوتا کہ فلاں شخص چوری کا رحجان رکھتا ہے اور چورے کرے گا یا کرنے والا ہے، بلکہ اِس علم کی بنیاد پر ہوتا ہے کہ اس شخص نے چوری کر ڈالی ہے۔ اسی طرح  بخششیں اور انعامات بھی اس کے ہاں اِس علم کی بنا پر نہیں دیے جاتے  کہ فلاں شخص اعلیٰ درجے  کا مومن و مجاہد بن سکتا ہے یا بنے گا، بلکہ اِس علم کی بنا پر دیے جاتے ہیں کہ فلاں شخص نے اپنے عمل سے اپنا صادق الایمان ہونا ثابت کر دیا ہے اور اللہ کی راہ میں جان لڑا کر د کھا دی ہے۔ اسی لیے ہم نے آیت کے ان الفاظ کا ترجمہ ”اللہ کو  تو ضرور یہ دیکھنا ہے“ کیا ہے۔