اس رکوع کو چھاپیں

سورة العنکبوت حاشیہ نمبر۳۹

اس فقرے سے خود بخود یہ بات نکلتی ہے کہ ان لوگوں نے آخر کار حضرت ابراہیمؑ کو جلانے کا فیصلہ کیا تھا اور وہ آگ میں پھینک دے گئے تھے ۔ یہاں بات صرف اتنی کہی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو آگ سے بچا لیا۔ لیکن سورۃ الانبیاء میں صراحت کے ساتھ فرمایا گیا ہے کہ آگ اللہ تعالیٰ کے حکم سے حضرت ابراہیمؑ کے لیے ٹھنڈی  اورغیر مضر ہو گئی، قُلْنَا یٰنَا رُکُوْنِیْ بَرْدًا وَّسَلَا مًا عَلیٰٓ اِبْرَاھِیْمَ (آیت ۶۹)۔ ” ہم نے کہا کہ اے آگ ٹھنڈی ہو جا اور سلامتی بن جا ابراہیمؑ پر۔“ ظاہر ہے کہ اگر اُن کو آگ میں پھینکا ہی نہ گیا ہو تو آگ  کو یہ حکم دینے کے کوئِ معنی نہیں ہیں کہ تو ان پر ٹھنڈی ہو جا اور ان کے لیے سلامتی  بن جا۔ اس سے یہ بات صاف طور پر ثابت ہوتی ہے کہ  تمام اشیاءکی خاصیتیں اللہ تعالیٰ کے حکم پر مبنی ہیں، اور وہ جس وقت جس چیز  کی خاصیت کو چاہے بدل سکتا ہے ۔ معمول کے مطابق اگ کا عمل یہی ہے کہ وہ جلائے اور ہر آتش پذیر چیز اس میں پڑ کر  جل جائے۔ لیکن آگ کا یہ  معمول اس کا اپنا قائم کیا ہوا نہیں ہے بلکہ خدا کا قائم کیا ہوا ہے۔ اور اس معمول نے خدا کو پابند نہیں کر دیا ہے کہ وہ اس کے خلاف کوئی حکم نہ دے سکے۔ وہ اپنی آگ کا مالک ہے۔ کی وقت بھی وہ اسے حکم  دے سکتا ہے کہ وہ جلا نے کا عمل چھوڑ دے۔ کسی وقت بھی وہ اپنے ایک اشارے سے آتش کدے کو گلزار میں تبدیل کر سکتا ہے۔ یہ غیر معمولی خَرقِ عادت اس کے ہاں  روز روز نہیں ہوتے۔ کسی بڑی حکمت اور مصلحت کی خاطر ہی ہوتے ہیں۔ لیکن معمولات کو ، جنہیں روز مرّہ دیکھنے کے ہم خوگر ہیں، اس بات  کے لیے ہر گز دلیل نہیں ٹھیرایا جا سکتا  کہ اللہ تعالیٰ کی قدرت اُن سے بندھ گئی ہے اور خلافِ معمول کوئی واقعہ اللہ کے حکم سے بھی نہیں ہو سکتا۔