اس رکوع کو چھاپیں

سورة العنکبوت حاشیہ نمبر۷۹

اس کے  کئی معنی ہو سکتے ہیں: ایک یہ کہ اللہ کا ذکر (یعنی نماز) اِس سے بزرگ تر ہے۔ اُس کی تاثیر صرف سلبی ہی نہیں ہے کہ برائیوں سے روکے، بلکہ اِس سے بڑھ کر  وہ نیکیوں پر ابھارنے والی اور سبقت الی الخیرات پر آمادہ کرنے والی چیز  بھی ہے۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ اللہ کی یاد بجائے خود بہت بڑی چیز ہے ۔ خیر الاعمال ہے۔ انسان کا کوئی عمل اس سے افضل نہیں ہے۔ تیسرا مطلب یہ ہے کہ اللہ کا تمہیں یاد کرنا تمہارے اُس کو یاد کرنے سے  زیادہ بڑی چیز ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ  کا ارشا د ہے کہ فَا ذْ کُرُوْنِیْٓ اَذْکُرْکُمْ (البقرہ، آیت ۱۵۲)۔ ”تم مجھے یاد کرو، میں تمہیں یاد کروں گا۔“ پس جب بندہ نماز میں اللہ کو یاد کرے گا  تو لا محالہ اللہ بھی اس کو یاد کرے گا۔ اور یہ فضیلت کہ اللہ کسی بندے کو یاد کرے، اِس سے بزرگ تر ہے کہ بندہ اللہ کو یاد کرے۔ ان تین مطالب  کے علاوہ ایک اور لطیف مطلب یہ بھی ہے جسے حضرت ابوالدَّرداء رضی اللہ عنہ کی اہلیۂ محترمہ نے بیان کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی یاد نماز تک محدود نہیں ہے بلکہ اس کا دائرہ اس سے بہت زیادہ وسیع ہے۔ جب آدمی روزے رکھتا ہے ، یا زکوٰۃ  دیتا ہے یا کوئی نیک کام کرتا ہے تو لامحالہ اللہ کو یاد ہی کرتا ہے، تبھی تو اس سے وہ عمل نیک صادر ہوتا ہے۔ اسی طرح جب آدمی کسی برائی کے مواقع سامنے آنے پر اس سے پرہیز کرتا ہے تو یہ بھی اللہ کی یاد ہی کا نتیجہ  ہوتا ہے۔ اس لیے یادِ الہٰی ایک موجن کی پوری زندگی پر حاوی ہوتی ہے۔