اس رکوع کو چھاپیں

سورة العنکبوت حاشیہ نمبر۸

مجاھدہ“ کے معنی کسی مخالف طاقت کے مقابلہ میں کشمکش اور جدو جہد کرنے  کے ہیں، اور جب کسی خاص مخالف طاقت کی نشان دہی نہ کی جائے بلکہ مطلقًا مجاھدہ کا لفظ استعمال کیا جائے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ یہ ایک ہمہ گیر اور ہر جہتی کش مکش ہے۔ مومن کو اِس دنیا میں جو کش مکش کرنی ہے اس کی نوعیت یہی کچھ ہے۔ اسے شیطان سے بھی لڑنا ہے جو اس کو ہر آن نیکی کے نقصانات سے ڈراتا اور بدی کے فائدوں اور لذتوں کا لالچ  دلاتا رہتا ہے۔ اپنے نفس سے بھی لڑنا ہے جو اسے ہر وقت اپنی خواہشات کا غلام بنانے کے لیے زور لگاتا رہتا ہے۔ اپنے گھر سے لے کر آفاق تک کے اُن تمام انسانوں سے بھی لڑنا ہے جن  کے نظریات، رُحْجانات ، اُصُولِ اخلاق، رسم و رواج، طرز تمدّن اور قوانینِ معیشت و معاشرت دینِ حق سے متصادم ہوں۔ اور اُس ریاست سے بھی لڑنا ہے جو خدا کی فرمانبرداری سے آزاد رہ کر اپنا فرمان چلائے اور نیکی کے بجائے بدی کو فروغ دینے میں اپنی قوتیں صرف کرے۔ یہ مجاہدہ ایک دن  دو دن کا نہیں عمر بھر کا ، اور چوبیس گھنٹوں میں سے ہر لمحہ کا ہے۔ اور کسی ایک میدان میں نہیں زندگی، کے ہر پہلو میں ہر محاذ پر ہے۔  اسی کے متعلق حضرت حسن بصری فرماتے ہیں ان الرجل لیجاھد و ما ضرب یو ما من  الدھر بسیف۔  ”آدمی جہاد کرتا ہے خوا ہ کبھی ایک دفعہ بھی وہ تلوار نہ چلائے۔“