یعنی مباحثہ معقول دلائل کے ساتھ، مہذب و شائستہ زبان میں، اور افہام و تفہیم کی اسپرٹ میں ہونا چاہیے ، تا کہ جس شخص سے بحث کی جارہی ہو اس کے خیالات کی اصلا ح ہو سکے۔ مبلّغ کو فکر اس بات کی ہونی چاہیے کہ وہ مخاطب کے دل کا دروازہ کھول کر حق بات اس میں اتار دے اور اسے راہِ راست پر لائے۔ اس کو ایک پہلوان کی طرح نہیں لڑنا چاہیے جس کا مقصد اپنے مد مقابل کو نیچا دکھانا ہوتا ہے۔ بلکہ اس کو ایک حکیم کی طرح چارہ گری کرنی چاہیے جو مریض کا علاج کرتے ہوئے ہر وقت یہ بات ملحوظ ِ خاطر رکھتا ہے کہ اس کی اپنی کسی غلطی سے مریض کا مرض اور زیادہ بڑھ نہ جائے، اور اس امر کی پوری کوشش کرتا ہے کہ کم سے کم تکلیف کے ساتھ مریض شفایاب ہو جائے۔ یہ ہدایت اس مقام پر تو موقع کی مناسبت سے اہلِ کتاب کے ساتھ مباحثہ کرنے کے معاملہ میں دی گئی ہے ، مگر یہ اہلِ کتاب کے لیے مخصوص نہیں ہے بلکہ تبلیغ دین کے باب میں ایک عام ہدایت ہے جو قرآن مجید میں جگہ جگہ دی گئی ہے مثلاً: وَلَا تَسْتَوِی الْحَسَنَۃُ وَلَا السَّیَِّٔۃُ اِدْفَعْ بِا لَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ فَاِ ذَا الَّذِیْ بَیْنَکَ وَبَیْنَہٗ عَدَاوَۃٌ کَاَ نَّہٗ وَلِیٌّ حَمِیْمٌo (حم السجدہ ۔ آیت ۳۴) اِدْفَعْ بِا لَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ السَّیَِّٔۃَ ط نَحْنُ اَعْلَمُ بِمَا یَصِفُوْنَ o (المومنون۔ آیت ۹۶) خُذِ الْعَفْوَ و َأْ مُرْ بِا لْعُرْ فِ وَ اَعْرِضْ عَنِ الْجَا ھِلِیْنَ o وَاِمَّا یَنْزَ غَنَّکَ مِنَ الشَّیْطٰنِ نَزْغٌ فَا سْتَعِذْ بِاللہِ۔ (الاعراف۔ آیات ۱۹۹-۲۰۰) ”درگزر کی روش اختیار کرو، بھلائی کی تلقین کرو ، اور جاہلوں کے منہ نہ لگو، اور اگر (ترکی بہ ترکی جواب دینے کے لیے ) شیطان تمہیں اُکسائے تو اللہ کی پناہ مانگو۔“ |