اس رکوع کو چھاپیں

سورة العنکبوت حاشیہ نمبر۹١

یعنی اُمّی ہونے کے باوجود تم پر قرآن جیسی کتاب کا نازل ہونا ، کیا یہ بجائے خود اتنا بڑا معجزہ نہیں ہے کہ تمہاری  رسالت پر یقین لانے کے لیے یہ کافی ہو؟ اس کے بعد بھی کسی اور معجزے کی ضرورت باقی رہ جاتی ہے؟ دوسرے معجزے تو جنہوں نے دیکھے ا ن کے لیے وہ معجزے تھے۔ مگر  یہ معجزہ تو ہر وقت تمہارے سامنے ہے۔ تمہیں آئے دن پڑھ کر سنایا جاتا ہے ۔ تم ہر وقت اسے دیکھ سکتے ہو۔
قرآن مجید کے اس بیان و استدلال کے بعد اُن لوگوں کی جسارت حیرت انگیز ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو خواندہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ حالانکہ یہاں قرآن صاف الفاظ میں حضورؐ کے نا خواندہ ہونے کو آپ کی نبوت کے حق میں ایک طاقت ور ثبوت کے طور پر پیش کررہا ہے۔ جن روایات کا سہارا لے کر یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ حضورؐ لکھے پڑھے تھے، یا بعد میں آپؐ  نے لکھنا پڑھنا سیکھ لیا تھا وہ اوّل تو پہلی ہی نظر میں رد کر دینے کے لیے لائق ہیں کیونکہ قرآن کے خلاف کوئی روایت بھی قابلِ قبول نہیں ہو سکتی۔ پھر وہ بجائے خود بھی اِتنی کمزوری میں ہیں کہ ان پر کسی استد لال کی بنیاد قائم نہیں ہو سکتی۔ ان میں سے ایک ، بخاری کی یہ روایت ہے کہ صلح حدیبیہ کا معاہدہ جب لکھا جا رہا تھا تو کفارِ مکّہ کے نمائندے نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کے ساتھ رسول اللہ لکھے جانے پر اعتراض کیا۔ اس پر حضورؐ نے کاتب( یعنی حضرت علی ؓ) کو حکم دیا کہ اچھا رسول اللہ کا لفظ کاٹ کر محمدؐ بن عبد اللہ  لکھ دو۔ حضرت علیؓ نے لفظ رسول اللہ کاٹنے سے انکار کر دیا۔ اس پر حضورؐ نے ان کے ہاتھ سے لے کر وہ الفاظ خود کاٹ دیے اور محمدؐ بن عبد اللہ لکھ دیا۔
لیکن یہ روایت بَراء بن عازِب سے بخاری میں  چار جگہ اور مسلم میں دو جگہ وارد ہوئی ہے اور ہر جگہ الفاظ مختلف ہیں:
(۱)  بخاری کتاب الصلح میں ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں: قال لعلی امحہ فقال علی ما انا بالذی امحاہ فمحاہ رسول اللہ بیدہ ۔ حضورؐ نے حضرت علیؓ  سے فرمایا یہ الفاظ کاٹ دو، انہوں نے عرض کیا  میں تو نہیں کاٹ سکتا۔ آخر کار  حضورؐ نے اپنے ہاتھ سے انہیں کاٹ دیا۔
(۲)  اسی کتاب میں دوسری روایت کے الفاظ یہ ہیں: ثم قال لعلی امح رسول اللہ قال لا واللہ لا امحوک ابدا فاخذ رسول اللہ الکتاب فکتب ھٰذا ما قاضیٰ علیہ محمد بن عبد اللہ ۔ پھر علی ؓ سے کہا ”رسول اللہ “ کاٹ دو۔ انہوں نے کہا خدا کی قسم میں آپ کا نام  کبھی نہ کاٹوں گا۔ آخر حضورؐ نے تحریر لے کر لکھا یہ وہ معاہدہ ہے جو محمدؐ بن عبد اللہ نے طے کیا۔
(۳) تیسری روایت انہی براء بن عازب سے بخاری کتاب الجزیہ میں یہ ہے: وکان لا یکتب فقال لعلی امح رسول اللہ فقال  علی واللہ لا امحاہ ابدًا قال فارنیہ قال فاراہ ایاہ فمحاہ النبی صلی اللہ علیہ وسلم بیدہ۔ حضورؐ خود نہ لکھ سکتے تھے۔ آپ نے حضرت علیؓ سے کہا رسول اللہ کاٹ دو۔ انہوں نے عرض کیا خدا کی قسم میں یہ الفاظ ہر گز نہ کاٹوں گا۔ اس پر حضورؐ نے فرمایا  مجھے وہ جگہ بتاؤ جہاں یہ الفاظ لکھے ہیں۔ انہوں نے آپ کو جگہ بتائی اور آپ نے اپنے ہاتھ سے وہ الفاظ کاٹ دیے۔
(۴)  چوتھی روایت بخاری کتاب المغازی میں یہ ہے: فاخذ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  الکتاب ولیس یحسن یکتب فکتب ھٰذا ما قاضیٰ محمد بن  عبد اللہ۔ پس حضورؐ نے وہ تحریر لے لی درآنحالیکہ آپ لکھنا نہ جانتے تھے اور آپ نے لکھا یہ  وہ معاہدہ ہے جو محمدؐ بن عبد اللہ نے طے کیا۔
(۵)  انہی براء بن عازِب سے مسلم کتاب الجہاد میں ایک روایت  یہ ہے کہ حضرت علیؓ کے انکار کرنے پر حضورؐ نے اپنے ہاتھ سے  ”رسول اللہ“ کے الفاظ مٹا دیے۔
(۶)   دوسری روایت اسی کتاب میں ان سے یہ منقول ہے کہ حضورؐ نے حضرت علیؓ سے فرمایا مجھے بتاؤ رسول اللہ کا لفظ کہاں لکھا ہے، حضرت علی ؓ نے آپ کو جگہ بتائی، اور آپ نے اسے مٹا کر  ابن عبد اللہ لکھ دیا۔
روایات کا یہ اضطراب صاف بتا رہا ہے کہ بیچ کے رایوں نے حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ کے الفاظ جوں کے توں نقل نہیں کیے ہیں، اس لیے ان میں سے کسی ایک نقل پر بھی ایسا مکمل اعتماد نہیں کیا جا سکتا  کہ یقینی طور پر یہ کہا جا سکے کہ حضورؐ نے ”محمدؐ بن عبد اللہ“ کے الفاظ اپنے دستِ مبارک ہی سے لکھے تھے۔ ہو سکتا ہے کہ صحیح صورت واقعہ یہ ہو کہ جب حضرت علیؓ نے  ”رسول اللہ“ کا لفظ مٹانے سے انکار کر دیا  تو آپؐ نے اس کی جگہ اُن سے پوچھ کر یہ لفظ اپنے ہاتھ سے مٹا دیا ہو اور پھر ان سے یا کسی دوسرے کاتب سے ابن عبد اللہ کے الفاظ لکھوادیے ہوں۔ دوسری روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس موقع پر صلح نامہ دو  کاتب لکھ رہے تھے۔ ایک حضرت علیؓ ، دوسرے محمد بن مَسْلَمَہ (فتح الباری، جلد ۵، ص ۲۱۷)۔ اس لیے یہ امر بعید  نہیں ہے کہ  جو کام ایک کاتب نے نہ کیا تھا وہ دوسرے کاتب سے لے لیا گیا ہو ۔ تاہم اگر واقعہ یہی ہو کہ حضورؐ نے اپنا نام اپنے ہی دستِ مبارک سے لکھا ہو، تو ایسی مثالیں دنیا میں بکثرت پائی جاتی ہیں کہ ان پڑھ لوگ صرف اپنا نام لکھنا سیکھ لیتے ہیں، باقی کوئی چیز نہ پڑھ سکتے ہیں نہ لکھ سکتے ہیں۔

دوسری روایت جس کی بنا پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خواندہ ہونے کا دعویٰ کیا گیا ہے مجاہد سے ابن ابی شَیبَہ اور عمر بن شبہ نے نقل کی ہے۔ اس کے الفاظ یہ ہیں کہ: ما مات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حتی کتب وقرأ۔ (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے وفات سے پہلے لِکھنا پڑھنا سیکھ چکے تھے)۔ لیکن اوّل تو یہ سند اً بہت ضعیف روایت ہے جیسا کہ حافظ ابن کثیر فرماتے ہیں  فضعیف لا اصل لہ۔ دوسرے اس کی کمزوری یوں بھی واضح ہے کہ اگر حضورؐ نے  فی الواقع بعد میں لکھنا پڑھنا سیکھا ہوتا تو یہ بات مشہور ہو جاتی، بہت سے صحابہ اس کو روایت کرتے اور یہ بھی معلوم ہو جاتا کہ حضورؐ نے کس شخص یا کن   اشخاص سے یہ تعلیم حاصل کی تھی۔ لیکن سوائے ایک عَون بن عبد اللہ کے ، جن سے مجاہد نے یہ بات سُنی، اور کوئی شخص اسے روایت نہیں کرتا۔ اور یہ عون بھی صحابی نہیں بلکہ تابعی ہیں جنہوں نے قطعًا یہ نہیں بتایا کہ انہیں کس صحابی یا کن صحابیوں سے اس واقعہ کا علم حاصل ہوا۔ ظاہر ہے کہ ایسی کمزور روایتوں کی بنیاد پر کوئی ایسی بات قابل تسلیم نہیں ہو سکتی جو مشہور و معروف واقعات کی تردید کرتی ہو۔