اس رکوع کو چھاپیں

سورة الروم حاشیہ نمبر١

ابن عباس ؓ اور دوسرے صحابہ و تابعین کے بیانات سے معلوم ہوتا ہے کہ روم و ایران کی اس لڑائی میں مسلمانو ں کی ہمدردیاں روم کے ساتھ اور کفار کی ہمدردیاں ایران کے ساتھ تھیں۔ اس کے کئی وجوہ تھے۔ ایک یہ کہ ایرانیوں نے اس لڑائی کو مجوسیت اور مسیحیت کی لڑائی کا رنگ دے دیا تھا اور وہ ملک گیری کے مقصد سے تجاوز کر کے اس مجوسیت پھیلانے کا ذریعہ بنا رہے تھے۔ بیت المَقْدِس کی فتح کے بعد خسرو پرویز نے جو خط قیصر روم کو لکھا تھا اس میں صاف طور پر وہ اپنی فتح کو مجوسیت کے برحق ہونے کی دلیل قرار دیتا ہے۔ اُصُولی اعتبار سے مجوسیوں کا مذہب مشرکینِ مکّہ کے مذہب سے ملتا جلتا تھا، کیونکہ وہ بھی توحید کے منکر تھے، دو خداؤں کو مانتے تھے اور آگ کی پرستش کرتے تھے۔ اس لیے  مشرکین کی ہمدردیاں ان کے ساتھ تھیں۔ ان کے مقابلہ میں مسیحی خواہ کتنے ہی مبتلائے شرک ہو گئے ہوں، مگر وہ خدا کی توحید کو اصلِ دین مانتے تھے، آخرت کے قائل تھے ، اور وحی و رسالت کو سر چشمۂ ہدایت تسلیم کرتے تھے۔ اس بنا پر ان کا دین اپنی اصل کے اعتبار سے مسلمانوں کے دین سے مشابہت رکھتا تھا، اور اسی لیے مسلمان قدرتی طور پر ان سے ہمدردی رکھتے تھے اور ان پر مشرک قوم کا غلبہ انہیں ناگوار تھا۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ ایک نبی کی آمد سے پہلے جو لوگ سابق نبی کو مانتے ہوں وہ اُصُولًا مسلمان ہی کی تعریف میں آتے ہیں اور جب تک بعد کے آنے والے نبی کی دعوت انہیں نہ پہنچے اور وہ اس کا انکار نہ کر دیں، ان کا شمار مسلمانوں ہی میں رہتا ہے (ملاحظہ ہو سورۂ قَصص، حاشیہ ۷۳)۔ اُس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت پر صرف پانچ چھ برس ہی گزرے تھے، اور حضورؐ کی دعوت ابھی تک باہر نہیں پہنچی تھی۔ اس لیے مسلمان عیسائیوں کا شمار کافروں میں نہیں کرتے تھے۔ البتہ یہودی ان کی نگاہ میں کافر تھے، کیونکہ وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نبوت کا انکار کر چکے تھے۔ تیسری وجہ یہ تھی کہ آغازِ اسلام  میں عیسائیوں کی طرف سے مسلمانوں کے ساتھ ہمدردی ہی کا برتاؤ ہُوا تھا جیسا کہ سورۂ قصص آیات ۵۲ تا ۵۵، اور سورۂ مائدہ آیات ۸۲ تا ۸۵ میں بیان ہُوا ہے۔ بلکہ ان میں سے بہت سے لوگ کھلے دل سے دعوت حق کو قبول کر رہے تھے۔ پھر ہجرت حبشہ  کے موقع پر جس طرح حبش کے عیسائی بادشاہ نے مسلمانوں کو پناہ دی اور ان کی واپسی کے لیے کفارِ مکّہ کے مطالبے کو ٹھکرا دیا اس کا بھی یہ تقاضا تھا کہ مسلمان مجوسیوں کے مقابلہ میں عیسائیوں کے خیر خواہ ہوں۔