اس رکوع کو چھاپیں

سورة الروم حاشیہ نمبر۲۸

یعنی خالق کا کمال ِ حکمت یہ ہے کہ اس نے انسان کی صرف ایک صِنف نہیں بنائی، بلکہ اسے دو صنفوں(Sexes )  کی شکل میں پیدا کیا جو انسانیت میں یکساں ہیں، جن کی بناوٹ کا بنیادی  فارمولا بھی یکساں ہے، مگر دونوں ایک دوسرے سے مختلف جسمانی ساخت، مختلف ذہنی و نفسی اوصاف، اور مختلف جذبات و داعیات لے کر پیدا ہوتی ہیں۔ اور پھر ان کے درمیان یہ حیرت انگیز مناسبت رکھ دی گئی ہے کہ ان میں سے ہر ایک دوسرے کا پورا جوڑ ہے، ہر ایک کا جسم اور اس کے نفسیات و داعیات دوسرے کے جسمانی و نفسیاتی تقاضوں کا مکمل جواب  ہیں۔ مزید براں وہ خالقِ حکیم اِن دونوں صنفوں کے افراد کو آغازِ آفرینش سے برابر تناسب کے ساتھ پیدا کیے چلا جا رہا ہے  کہ آج تک کبھی ایسا نہیں ہوا کہ دنیا کی کسی قوم یا کسی خطۂ زمین میں صرف لڑکے ہی لڑکے پیدا ہوئے ہوں، یا کہیں کسی قوم میں صرف لڑکیاں ہی لڑکیاں پیدا ہوتی چلی گئی ہوں۔ یہ ایسی چیز ہے  جس میں کسی انسانی تدبیر کا قطعًا کوئی دخل نہیں ہے۔ انسان ذرہ برابر بھی نہ اِس معاملہ میں اثر انداز ہو سکتا ہے کہ لڑکیاں مسلسل ایسی زنا نہ خصوصیات اور لڑکے مسلسل ایسی مردانہ  خصوصیات لیے ہوئے  پیدا ہوتے  رہیں جو ایک دوسرے کا ٹھیک جوڑ ہوں، اور نہ اِس معاملہ  ہی میں اس کے پاس اثر انداز ہونے کا کوئی ذریعہ ہے کہ عورتوں اور مردوں کی پیدائش اس طرح مسلسل ایک تناسب کے ساتھ ہوتی چلی جائے۔ ہزارہا سال سے کروڑوں اور اربوں انسانوں کی پیدائش میں اس تدبیر و انتظام کا اتنے متناسب طریقے سے پیہم جاری رہنا اتفاقاً بھی نہیں ہو سکتا، اور یہ بہت سے خداؤں کی مشترک تدبیر کا نتیجہ بھی نہیں ہو سکتا۔ یہ چیز صریحًا اس بات پر دلالت کر رہی ہے کہ ایک خالقِ حکیم، اور ایک ہی خالقِ حکیم نے اپنی غالب حکمت وقدرت سے ابتداءً مرد اور عورت کا ایک موزوں ترین ڈیزائن بنایا، پھر اس بات کا انتظام کیا کہ اس ڈیزائن کے مطابق بے حد و حساب مرد اور بے حد و حساب عورتیں اپنی الگ الگ انفرادی خصوصیات لیے ہوئے دنیا بھر میں ایک تناسب  کے ساتھ پیدا ہوں۔