اس رکوع کو چھاپیں

سورة الروم حاشیہ نمبر۲۹

یعنی یہ انتظام الل ٹپ  نہیں  ہو گیا ہے کہ بلکہ بناے والے نے بالارادہ اِس غرض کے لیے یہ انتظام کیا ہے کہ مرد اپنی فطرت کے تقاضے عورت کے پاس، اور عورت اپنی فطرت کی مانگ مرد کے پاس پائے ، اور دونوں ایک دوسرے سے وابستہ ہر کر ہی سکون و اطمینان حاصل کریں۔ یہی وہ حکیمانہ تدبیر ہے جسے خالق نے ایک طرف انسانی نسل کے برقرار رہنے کا، اور دوسری طرف انسانی تہذیب و تمدن کو وجود میں لانے کا ذریعہ بنایا ہے۔ اگر یہ دونوں صنفیں محض الگ الگ ڈیزائنوں کے ساتھ پیدا کر دی جاتیں اور ان میں وہ اضطراب نہ رکھ دیا جاتا جو اُن کے باہمی اتصال و وابستگی کے بغیر مبدّل بسکون نہیں ہو سکتا، تو انسانی نسل تو ممکن ہے کہ بھیڑ بکریوں کی طرح چل جاتی، لیکن کسی تہذیب و تمدّن کے وجود میں آنے کا کوئی امکان نہ تھا۔ تمام انواع حیوانی کے برعکس نوع انسانی میں تہذیب و تمدّن کے رونما ہونے کا بنیادی سبب یہی ہے کہ خالق نے اپنی حکمت سے مرد اور عورت میں ایک دوسرے کے لیے وہ مانگ، وہ پیاس ، وہ اضطراب کی کیفیت رکھ دی  جسے سکون میسّر نہیں آتا جب تک کہ وہ ایک دوسرے سے جُڑ کر نہ رہیں۔ یہی سکون کی طلب ہے جس نے انہیں مل کر گھر بنانے پر مجبور کیا۔ اسی کی بدولت خاندان اور قبیلے  وجود میں آئے۔ اور اسی کی بدولت انسان کی زندگی میں تمدُّن کا نشوو نما ہوا۔ اس نشو ونما میں انسان کی ذہنی صلاحیتیں مددگار ضرور ہوئی ہیں مگر وہ اس کی اصلی محرک نہیں ہیں۔ اصل محرک یہی اضطراب ہے جسے مرد و عورت کے وجود میں ودیعت کر کے انہیں ”گھر“ کی تاسیس پر مجبور ر دیا گیا۔ کون صاحبِ عقل یہ سوچ سکتا ہے کہ دانائی کا یہ شاہکار فطرت کی اندھی طاقتوں سے محض اتفاقًا سر زد ہو گیا ہے؟ یا بہت سے خدا یہ انتظام کر سکتے تھے کہ اس  گہرے حکیمانہ مقصد کو ملحوظ  رکھ کر ہزار ہا برس سے مسلسل بے شمار مردوں اور بے شمار عورتوں کو یہ خاص اضطراب لیے ہوئے پیدا کر تے چلے جائیں؟ یہ تو ایک حکیم اور ایک ہی حکیم کی حکمت کا صریح نشان ہے جسے صرف عقل کے اندھے ہی دیکھنے سے انکار کر سکتے ہیں۔