اس رکوع کو چھاپیں

سورة الروم حاشیہ نمبر۳١

یعنی اُن کا عدم سے وجود میں آنا ، اور ایک اٹل ضابطے پر ان کا قائم ہونا، اور بے شمار قوتوں کا ان کے اندر انتہائی تناسُب و توازُن کے ساتھ کام کرنا، اپنے اندر اس بات کی بہت سی نشانیاں رکھتا ہے کہ اس پوری کائنات کو ایک خالق اور ایک ہی خالق وجود میں لایا ہے، اور وہی اس عظیم الشان نظام کی تدبیر کر رہا ہے۔ ایک طرف اگر اس بات پر غور کیا  جائے کہ وہ ابتدائی قوت (Energy ) کہاں سے آئی جس نے مادّے کی شکل اختیار کی، پھر مادّے کے یہ بہت سے عناصر کیسے بنے، پھر ان عناصر کی اس قدر حکیمانہ ترکیب سے اتنی حیرت انگیز مناسبتوں  کے سساتھ یہ مدہوش کن نظامِ عالم کیسے بن گیا، اور اب یہ نظام کروڑ ہا کروڑ صدیوں سے کس طرح ایک زبردست قانونِ فطرت کی بندش میں کسا ہو ا چل رہا ہے، تو ہر غر متعصب عقل اس نتیجے پر پہنچے گی کہ یہ سب کچھ کسی علیم و حکیم کے غالب ارادے کے بغیر محض بخت و اتفاق کے نتیجے میں نہیں ہو سکتا۔ اور دوسری طرح اگر یہ دیکھا جائے کہ زمین سے لے کر کائنات کے بعید ترین سیاروں تک سب ایک ہی طرح کے عناصر سے مرکب ہیں اور ایک ہی قانونِ فطرت ان میں کار فرما ہے تو ہر عقل جو ہٹ دھرم نہیں ہے، بلا شبہہ یہ تسلیم کرے گی کہ یہ سب کچھ بہت سے خداؤں کی خدائی کا کرشمہ نہیں ہے بلکہ ایک ہی خدا اِس پوری کائنات کا خالق اور ربّ ہے۔