اس رکوع کو چھاپیں

سورة الروم حاشیہ نمبر۳۳

فضل کو تلاش کرنے سے مراد رزق کی تلاش  میں دوڑ دھوپ کرنا ہے۔ انسان اگرچہ بالعموم رات کو سوتا اور دن کو اپنی معاش کے لیے جدوجہد کرتا ہے ، لیکن یہ کُلّیہ نہیں ہے۔ بہت سے انسان دن کو  بھی سوتے  اور رات کو بھی معاش کے لیے کام کرتے ہیں۔ اسی لیے رات اور دن کا اکٹھا ذکر کر کے فرمایا  کہ ان دونوں اوقات میں تم سوتے بھی ہو اور اپنی معاش کے لیے دوڑ دھوپ بھی کرتے ہو۔
یہ چیز بھی اُن نشانیوں میں سے ہے جو ایک خالقِ حکیم کی تدبیر کا پتہ دیتی ہیں۔ بلکہ مزید برآں یہ چیز اس بات کی نشان دہی بھی کرتی ہے کہ وہ محض خالق ہی نہیں ہے بلکہ اپنی مخلوق پر غایت درجہ رحیم و شفیق اور اس کی ضروریات اور مصلحتوں کے لیے خود اُسے سے بڑھ کر فکر کرنے والا ہے ۔ انسان دنیا میں مسلسل محنت نہیں کر سکتا بلکہ ہر چند گھنٹوں کی محنت کے بعد اسے چند گھنٹوں کے  لیے آرام درکار ہوتا ہے تا کہ پھر چند گھنٹے محنت کرنے کے لیے اسے قوت بہم پہنچ جائے۔ اس غرض  کے لیے خالقِ حکیم و رحیم نے انسان کے اندر صرف تکان  کا احساس، اور صرف آرام کی خواہش پیدا کر دینے ہی پر اکتفا نہیں کیا، بلکہ اس نے  ”نیند“ کا  ایک ایسا زبردست داعیہ اس کے وجود میں رکھ دیا  جو اس کے ارادے کے بغیر، حتیٰ کہ اس کی مزاحمت کے باوجود ، خود بخود ہر چند گھنٹوں کی بیداری و محنت کے بعد اسے آدبوچتا ہے، چند گھنٹے آرام لینے پر اس کو مجبور کر دیتا ہے، اور ضرورت پوری ہو جانے کے بعد  خودبخود اسے چھوڑ دیتا ہے۔ اس نیند کی ماہیت و کیفیت اور اس کے حقیقی اسباب کو آج تک انسان نہیں سمجھ سکا ہے۔ یہ قطعًا ایک پیدائشی چیز ہے جو آدمی کی فطرت  اور اس کی ساخت میں رکھ دی گئی ہے ۔ اس کا ٹھیک انسان کی ضرورت کے مطابق ہونا ہی اس بات کی شہادت دینے کے لیے کافی ہے کہ یہ ایک اتفاقی حادثہ نہیں ہے بلکہ کسی حکیم نے ایک سوچے سمجھے منصوبے کے مطابق یہ تدبیر و ضع کی ہے۔ اس میں ایک  بڑی حکمت و مصلحت اور مقصدیت صاف طور پر کار فرما نظر آتی ہے۔ مزید براں یہی  نیند اس بات پر بھی گواہ ہے کہ جس نے یہ مجبور کُن داعیہ انسان کے اندر رکھا ہے وہ انسان کے حق میں خود اس سے بڑھ کر خیر خواہ ہے، ورنہ انسان بالارادہ نیند کی مزاحمت کر کے اور زبردستی جاگ جاگ کر اور مسلسل کام کر کر کے اپنی قوتِ کار کو ہی نہیں،  قوتِ حیات  تک کو ختم کر ڈالتا ۔

پھر رزق کی تلاش کے لیے  ”اللہ کے فضل کی تلاش“ کا لفظ استعمال کر کے نشانیوں کے ایک دوسرے سلسلے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ آدمی آخر یہ رزق تلاش ہی کہاں کر سکتا تھا اگر زمین و آسمان کی بے حد و حساب طاقتوں کو رزق کے اسباب و ذرائع پیدا کرنے میں نہ لگا دیا گیا ہوتا، اور زمین میں انسان کے لیے رزق کے بے شمار ذرائع نہ پیدا کر دیے گئے ہوتے ۔ صرف یہی نہیں، بلکہ رزق کی  یہ تلاش اور اس کا اکتساب اُس صورت میں بھی ممکن نہ ہوتا اگر انسان کو اِس کام کے لیے مناسب ترین اعضاء اور مناسب ترین جسمانی اور  ذہنی صلاحیتیں نہ دی گئی ہوتیں۔ پس آدمی کے اندر تلاشِ رزق کی قابلیت اور اُس کے وجود سے باہر وسائل ِ رزق کی موجودگی، صاف صاف ایک ربِّ رحیم و کریم کے وجود کا پتہ دیتی ہے۔ جو عقل بیمار نہ ہو وہ کبھی یہ فرض نہیں کر سکتی کہ یہ سب کچھ اتفاقًا ہو گیا ہے، یا یہ بہت سے خداؤں کی خدائی کا کرشمہ ہے، یا کوئی بے درد اندھی قوت اِس فضل و کرم کی ذمّہ دار ہے۔