اس رکوع کو چھاپیں

سورة الروم حاشیہ نمبر۴۰

مشرکین یہ تسلیم کرنے کے بعد کہ زمین و آسمان اور اسکی سب چیزوں کا خالق و مالک اللہ تعالیٰ ہے، اُس کی مخلوقات  میں سے بعض کو خدائی صفات و اختیارات میں اس کا شریک ٹھیراتے تھے، اور ان سے دعائیں مانگتے ، ان کے آگے نذریں اور نیازیں پیش کرتے، اور مراسم عبودیت بجا لاتے تھے۔ اِن بناوٹی شریکوں کے بارے میں اُن کا اصل عقیدہ  اُس تَلبِیْہ کے الفاظ  میں ہم کو ملتا ہے جو خانۂ کعبہ کا طواف کرتے وقت وہ زبان سے ادا کرتے  تھے۔ وہ اس موقع پر کہتے تھے: لبّیک اللّٰہم  لبّیک لَا شریک لک الّا شریکا ھو لک تملکہ و ما ملک (طَبَرانی عن ابن عباس)۔”میں حاضر ہوں، میرے اللہ میں حاضر ہوں، تیرا کوئی شریک نہیں سوائے اُس شریک کے جو تیرا اپنا ہے، تو اُس کا بھی مالک ہے اور جو کچھ اُس کی ملکیت ہے اس کا بھی تو مالک ہے۔“ اللہ تعالیٰ اِس آیت میں اِسی شرک کی تردید فرما رہا ہے۔ تمثیل کا منشا  یہ ہے کہ خدا کے دیے ہوئے مال میں خدا ہی کے پیدا کیے ہوئے وہ انسان جو اتفاقًا تمہاری غلامی میں آگئے ہیں تمہارے تو شریک نہیں قرار پا سکتے، مگر تم نے یہ عجیب دھاندلی مچا رکھی ہے کہ خدا کی پیدا کی ہوئی کائنات میں خدا کی پیدا کردہ مخلوق کو بے تکلف اُس کے ساتھ خدائی کا شریک ٹھیراتے ہو۔ اس طرح کی احمقانہ باتیں سوچتے ہوئے آخر تمہاری عقل کہاں ماری جاتی ہے۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد دوم، النَّحل، حاشیہ ۶۲)۔