اس رکوع کو چھاپیں

سورة الروم حاشیہ نمبر۴۵

یعنی تمام انسان اِس فطرت پر پیدا کیے گئے ہیں کہ ان کا کوئی خالق اور کوئی ربّ اور کوئی معبود اور مُطاعِ حقیقی ایک اللہ کے سوا نہیں ہے۔ اسی فطرت پر تم کو قائم ہو جانا چاہیے۔ اگر خود مختاری کا رویہ اختیار کرو گے تب بھی فطرت کے خلاف چلو گے اور اگر بندگی ٔ غیر کا طوق اپنے گلے  میں ڈالو گے تب بھی اپنی فطرت کے خلاف کام کرو گے۔
اس مضمون کو متعدد احادیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح فرمایا ہے۔ بخاری و مسلم میں ہے کہ حضور ؐ نے فرمایا   ما من مولود یولد الا علی الفطرۃ فا بواہ  یھودانہ او ینصر انہ او یمجسانہ کما تنتج البھیمۃ بھیمۃ جمعاء، ھل تحسون فیھا من جد عاء۔ یعنی ہر بچہ جو کسی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوتا ہے ، اصل نسانی فطرت پر پیداہوتا ہے۔ یہ ماں باپ ہیں جو اسے بعد میں عیسائی یا یہودی یا مجوسی وغیرہ بنا ڈالتے ہیں۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے ہر جانور کے پیٹ سے پورا کا پورا صحیح و سالم جانور برآمد ہوتا ہے، کوئی بچہ بھی کٹے ہوئے کان لے کر نہیں آتا، بعد میں مشرکین اپنے اوہام جاہلیت کی بنا پر اس کے کان کاٹتے ہیں۔
مُسند احمد اور نَسائی میں ایک اور حدیث ہے کہ ایک جنگ میں مسلمانوں نے دشمنوں کے بچوں تک کو قتل کر دیا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر ہوئی تو سخت ناراض ہوئے اور فرمایا  ما بال اقوام جاوزھم القتل الیوم حتیٰ قتلو ا الذُّرّیّۃ،  ”لوگوں کو کیا ہو گیا  کہ آج وہ حد سے گزر گئے اور بچوں تک کو قتل کر ڈالا۔“ ایک شخص نے عرض کیا  کیا یہ مشرکین کے بچے نہ تھے؟ فرمایا  انما خیارکم ابناء المشرکین، ”تمہارے بہترین لوگ مشرکین ہی کی تو  اولاد ہیں۔“ پھر فرمایا  کل نسمۃ تولد علی الفطرۃ حتی  یعرب عنہ لسانھا  فا بوا ھا یھود انھا او ینصر انھا،  ”ہر متنفس فطرت پر پیدا ہوتا ہے، یہاں تک کہ جب اس کی زبان کھلنے پر آتی ہے تو ماں باپ اسے یہودی یا نصرانی بنا لیتے ہیں۔“

ایک اور حدیث جو امام احمد ؒ نے عیاض بن حمار المُجاشِعی سے نقل کی ہے اس میں بیان ہوا ہے کہ ایک روز بنی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خطبہ  کے دوران میں فرمایا  ان ربی یقول انی خلقت عبادی حنفاء کلہم  و انھم اتتھم الشیاطین فاضلتہم عن دینہم و حَرَّ مَتْ علیہم ما احللتُ لھم و اَمَرَتْھم ان یشرکوا بی مالم انزل بہٖ سُلطانا۔”میرا رب فرماتا ہے کہ میں نے اپنے تمام بندوں کو حنیف پیدا کیا تھا، پھر شیاطین نے آکر انہیں ان کے دین سے گمراہ کیا، اور جو کچھ میں نے ان کے لیے حلال کیا تھا اسے حرام کیا، اور انہیں حکم دیا کہ میرے ساتھ اُن چیزوں  کو شریک ٹھیرائیں جن کے شریک ہونے پر میں نے کوئی دلیل نازل نہیں کی ہے۔“