اس رکوع کو چھاپیں

سورة الروم حاشیہ نمبر۵

یہ آخرت پر بجائے خود ایک مستقل استدلال ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ اگر یہ لوگ باہر کسی طرف نگاہ دَوڑانے سے پہلے خود اپنے وجود پر غور کرتے تو انہیں اپنے اندر ہی وہ دلائل مل جاتے جو موجودہ زندگی کے بعد دوسری زندگی کی ضرورت ثابت کرتے ہیں۔ انسان کی تین امتیازی خصوصیات ایسی ہیں جو اس کو زمین کی دوسری موجودات سے ممیز کرتی ہیں:
ایک یہ کہ زمین اور اس کے ماحول کی بے شمار چیزیں اس کے لیے مسخر کر دی گئی ہیں اور ان پر تصرف کے وسیع اختیارات اس کو بخش دیے گئے ہیں۔
دوسرے یہ کہ اِسے اپنی راہِ  زندگی کے انتخاب میں آزاد چھوڑ دیا گیا ہے۔ ایمان اور کفر، طاعت اور معصیت، نیکی اور بدی کی راہوں میں سے جس راہ پر بھی جانا چاہے جا سکتا ہے۔ حق اور باطل ، صحیح اور غلط ، جس طریقے  کو بھی اختیار کرنا چاہے کر سکتا ہے۔ ہر راستے پر چلنے کے لیے اسے توفیق دے دی جاتی ہے اور اس پر چلنے میں وہ خدا کے فراہم کردہ   ذرائع استعمال کرسکتا ہے ، خواہ وہ خدا کی اطاعت کا راستہ ہو یا اس کی نافرمانی کا راستہ۔
تیسرے یہ کہ اس میں پیدائشی طور پر اخلاق کی حِس رکھ دی گئی ہے جس کی بنا پر وہ اختیاری اعمال اور غیر اختیاری اعمال میں فرق کرتا ہے ، اختیاری اعمال پر نیکی اور بدی کا حکم لگاتا ہے ، اور بداہتًہ یہ رائے قائم کر تا ہے کہ اچھا عمل جزا کا اور بُرا عمل سزا کا مستحق ہونا چاہیے۔

یہ تینوں خصوصیتیں جو انسا ن کے اپنے وجود میں پائی جاتی ہیں اس بات کی نشان دہی کرتی ہیں کہ کوئی وقت ایسا ہونا چاہیے جب انسان سے محاسبہ کیا جائے۔ جب اس سے پوچھا جائے کہ جو کچھ دنیا میں  اس کو دیا گیا تھا اس پر تصرف کے اختیارات کو اس نے کس طرح استعمال کیا؟ جب یہ دیکھا جائے کہ اس نے اپنی آزادیئ انتخاب کو استعمال کر کے صحیح راستہ اختیار کیا یا غلط؟ جب اس کے اختیاری اعمال کی جانچ کی جائے اور نیک عمل پر جزا اور بُرے عمل پر سزا دی جائے  ۔ یہ وقت لامحالہ انسان کا کارنامۂ زندگی ختم اور اس کا دفترِ عمل بند ہونے کے بعد ہی آسکتا ہے نہ کہ اس سے پہلے۔ اور یہ وقت لازماً اسی وقت آنا چاہیے جب کہ ایک فرد یا ایک قوم کا نہیں بلکہ تمام انسانوں کا دفتر ِ عمل بند ہو۔ کیونکہ ایک فرد  یا ایک قوم کے مر جانے پر اُن اثرات کا سلسلہ ختم  نہیں ہو جاتا جو اس نے اپنے اعمال کی بدولت دنیا میں چھوڑ ے ہیں۔ اُس کے چھوڑے ہوئے اچھے بُرے اثرات بھی تو اس کے حساب میں شمار  ہونے چاہییں۔ یہ اثرات جب تک مکمل طورپر ظاہر نہ ہو لیں انصاف کے مطابق   پورا محاسبہ کرنا اور پوری جزا  یا  سزا دینا کیسے ممکن ہے؟ اس طرح انسان کا اپنا وجود اس بات کی شہادت دیتا ہے، اور زمین میں انسان کو جو حیثیت حاصل ہے وہ آپ سے آپ اس امر کا تقاضا کرتی ہے کہ دنیا کہ موجودہ زندگی کے بعد ایک دوسری زندگی ایسی ہو جس میں عدالت قائم ہو، انصاف کے ساتھ انسان کے کارنامۂ زندگی کا محاسبہ کیا جائے، اور ہر شخص کو اس کے کام کے لحاظ سے جزا دی جائے۔