اس رکوع کو چھاپیں

سورة الروم حاشیہ نمبر۵۷

یہ نہیں  فرمایا کہ رشتہ دار ، مسکین اور مسافر کو خیرات دے۔ ارشاد  یہ ہوا ہے کہ یہ اُس کا حق ہے جو تجھے دینا چاہیے، اور حق ہی سمجھ کر تو اسے دے۔ اس کو دیتے ہوئے یہ خیال تیرے دل میں نہ آنے پانے کے یہ کوئی احسان ہے جو تو اس  پر کر رہا ہے، اور تو کوئی بڑی ہستی ہے دان کرنے والی، اور  وہ کوئی حقیر مخلوق ہے تیرا دیا  کھانے والی۔ بلکہ یہ بات اچھی طرح تیرے ذہن نشین رہے کہ مال کے مالک حقیقی نے اگر تجھے زیادہ دیا ہے اور دوسرے بندوں کو کم عطا  فرمایا ہے تو یہ زائد مال اُن دوسروں کا حق ہے جو تیری آزمائش کے لیے تیرے ہاتھ میں دے دیا گیا ہے تاکہ تیرا مالک دیکھے کہ تو ان کا حق پہچانتا اور پہنچاتا ہے ہے یا نہیں۔

اس ارشاد الہٰی اور اس کی اصلی روح پر جو شخص بھی غور کرے گا وہ یہ محسوس کیے بغیر نہیں رہ سکتا  کہ قرآن مجید انسان کے لیے اخلاقی و روحانی ارتقاء کا جو راستہ تجویز کرتا ہے اس کے لیے ایک آزاد معاشرہ اور آزاد معیشت (Free Economy ) کی موجودگی ناگزیر ہے۔ یہ ارتقاء کسی ایسے اجتماعی ماحول میں ممکن نہیں ہے جہاں لوگوں  کے حقوقِ ملکیت ساقط کر دیے جائیں، ریاست تمام ذرائع کی مالک ہو  جائے اور افراد کے درمیان تقسیم رزق کا پورا کاروبار حکومت کی مشینری سنبھال لے، حتیٰ کہ نہ کوئی فرد اپنے اوپر کسی کا کوئی حق پہچان کر دے سکے، اور نہ کوئی دوسرا فرد کسی سے کچھ لے کر اس کے لیے اپنے دل میں کوئی جذبۂ خیر سگالی پرورش کر سکے۔ اس طرح کا خالص کمیونسٹ نظامِ تمدّن و معیشت، جسے آج کل ہمارے ملک میں  ”قرآنی نظامِ ربوبیت“ کے پر فریب نام سے زبردستی قرآن کے سر منڈھا جا رہا ہے، قرآن کی اپنی اسکیم کے بالکل خلاف ہے، کیونکہ اس میں انفرادی اخلاق کے نشوونما اور انفرادی سیرتوں کی تشکیل و ترقی کا دروازہ قطعًا بند ہو جاتا ہے۔ قرآن کی اسکیم تو اُسی جگہ چل سکتی ہے جہاں افراد کچھ وسائل ِ دولت کے مالک ہوں، اُن پر آزادانہ تصرّف کے اختیارات رکھتے ہوں، اور پھر اپنی رضا و رغبت سے خدا اور اس کے بندوں کے حقوق اخلاص کے ساتھ ادا کریں۔ اِسی قسم کے معاشرے میں  یہ امکان پیدا ہوتا ہے کہ فرداً فرداً لوگوں میں ایک طرف ہمدردی،رحم و شفقت، ایثار و قربانی اور حق شناسی و ادائے حقوق کے اعلیٰ اوصاف پیدا ہوں، اور دوسری طرف جن لوگوں کے ساتھ بھلائی کی جائے ان کے دلوں میں بھلائی کرنے والوں کے لیے خیر خواہی، احسان مندی، اور جزاء الاحسان بالاحسان کے پاکیزہ جذبات نشو و نما پائیں، یہاں تک کہ وہ مثالی حالت پیدا ہو جائے جس میں بدی کا رُکنا اور نیکی کا فروغ پانا کسی قوتِ جابرہ کی مداخلت پر موقوف نہ ہو، بلکہ لوگوں کی اپنی پاکیزگی ٔ نفس اور ان کے اپنے نیک ارادے اس ذمہ داری کو سنبھال لیں۔