اس رکوع کو چھاپیں

سورة الروم حاشیہ نمبر۵۹

قرآن مجید میں یہ پہلی آیت ہے جو سود کی مذمت میں نازل ہوئی۔ اس میں صرف اتنی بات فرمائی گئی ہے کہ تم لوگ تو سو د یہ سمجھتے ہوئے دیتے ہو کہ جس کو ہم یہ زائد مال دے رہے ہیں اس کی دولت بڑھی گی ، لیکن درحقیقت اللہ کے نزدیک سود سے دولت کی افزائش نہیں ہوتی بلکہ زکوٰۃ سے ہوتی ہے۔ آگے چل کر جب مدینہ ٔطیبہ میں سود کی حرمت کا حکم نازل  کیا گیا تو اس پر مزید یہ بات ارشاد فرمائی گئی کہ یَمْحَقُ اللہُ الرِّبوٰ وَ یُرْ بِی الصَّدَقٰتِ،   ” اللہ سود کا مَٹھ مار دیتا ہے اور صدقات کو نشوونما دیتا ہے۔“ (بعد کے احکام کے لیے ملاحظہ ہو آلِ عمران ، آیت ۱۳۰۔ البقرہ، آیات ۲۷۵ تا ۲۸۱)۔
اس آیت کی تفسیر میں مفسرین کے دو اقوال ہیں۔ ایک گروہ کہتا ہے کہ یہاں ربوٰ سے مراد وہ سود نہیں ہے جو شرعًا حرام کیا گیا ہے، بلکہ وہ عطیہ یا ہدیہ و تحفہ ہے جو اِس نیت سے دیا جائے کہ لینے والا بعد میں ا س سے زیادہ واپس کرے گا، یا مُعطی کے لیے کوئی مفید خدمت انجام دے گا،  یا اس کا خوشحال ہو جانا معطی کی اپنی ذات کے  لیے نافع ہو گا۔ یہ ابنِ عباسؓ، مجاہدؓ، ضحاکؓ، قتادَہ، عِکْرِمَہ، محمد بن کَعْب القُر َظِی اور شَعبی کا قول ہے۔ اور غالبًا یہ تفسیر اِن حضرات  نے اس بنا  پر فرمائی ہے کہ آیت میں اِس فعل کا نتیجہ صرف اتنا ہی بتایا گیا ہے کہ اللہ کے ہاں اس دولت کو کوئی افزائش نصیب نہ ہو گی، حالانکہ اگر معاملہ اُس سود کا  ہوتا جسے شریعت نے حرام کیا ہے تو مثبت طور پر فرمایا جاتا کہ اللہ کے ہاں اس پر سخت عذاب دیا جائے گا۔
دوسرا گروہ کہتا ہے کہ  نہیں اس سے مراد  وہی معروف ربوٰ ہے جسے شریعت نے حرام کیا ہے۔ یہ رائے حضرت حس بصری اور سُدِّی کی ہے اور علامۂ آلوسی کا خیال ہے کہ آیت کا ظاہری مفہوم یہی ہے، کیونکہ عربی زبان میں ربوٰ  کا لفظ اسی معنی کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اسی تاویل کو مفسر نیسابوری نے بھی اختیار کیا ہے۔

ہمارے خیال میں بھی یہی دوسری تفسیر صحیح ہے، اس لیے کہ معروف معنی کو چھوڑنے کے لیے وہ دلیل کافی نہیں ہے جو اوپر  تفسیرِ اول کے حق میں بیان ہوئی ہے۔ سورۂ روم کا نزول جس زمانے میں ہو اہے اُس وقت قرآن مجید میں سود کی حرمت کا اعلان نہیں ہوا تھا۔ یہ اعلان اس کے کئی برس بعد ہُوا ہے۔ قرآن مجید کا طریقہ یہ ہے کہ جس چیز کو بعد میں کسی وقت حرام کرنا ہوتا  ہے، اس کے لیے وہ پہلے سے ذہنوں کو تیار کرنا شروع  کر دیتا ہے۔شراب کے معاملے میں بھی پہلے صرف اتنی بات فرمائی گئی تھی کہ وہ پاکیزہ رزق نہیں ہے  (النحل آیت ۶۷)، پھر فرمایا کہ اس کا گناہ اس کے فائدے سے زیادہ ہے (البقرہ ۲۱۹) ، پھر حکم دیا گیا کہ نشے کی حالت میں نماز کے قریب نہ جاؤ (النساء ۴۳)، پھر اس کی قطعی حر مت کا فیصلہ کر دیا گیا۔ اسی طرح یہاں سود کے متعلق  صرف اتنا کہنے پر اکتفا کیا گیا ہے کہ یہ وہ چیز نہیں ہے جس سے دولت کی افزائش ہوتی ہو، بلکہ حقیقی افزائش ِ زکوٰۃ  سے ہوتی ہے۔ اس کے بعد سود در سود کو  منع  کیا گیا (آل عمران ، آیت ۱۳۰)۔ اور سب سے آخر میں بجائے خود سود ہی کی قطعی حرمت کا فیصلہ کر دیا گیا  (البقرہ، آیت ۵)۔