اس رکوع کو چھاپیں

سورة الروم حاشیہ نمبر٦

اس فقرے میں آخرت کی  دو مزید دلیلیں دی گئی ہیں۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ اگر انسان اپنے وجود سے باہر کے نظامِ کائنات کو بنظرِ غور دیکھے تو اسے دو حقیقتیں نمایاں نظر آئیں گی:
ایک یہ کہ یہ کائنات برحق بنائی گئی ہے۔ یہ کسی بچے کا کھیل نہیں ہے کہ محض دل بہلانے کے لیے اس نے ایک بے ڈھنگا سا گھروندا بنا لیا ہو جس کی تعمیر اور تخریب دونوں ہی بے معنی ہوں۔ بلکہ یہ ایک سنجیدہ نظام ہے ، جس کا ایک ایک ذرّہ اس بات پر گواہی دے رہا ہے کہ اسے کمال درجہ حکمت کے ساتھ بنایا گیا ہے، جس کی ہر چیز میں ایک قانون کار فرما ہے، جس کی ہر شے با مقصد ہے۔ انسان کا سارا تمدّن اور اس کی پوری معیشت اور اس کے تمام  علوم و فنون خود اس بات  پر گواہ ہیں۔ دنیا کی ہر چیز کے پیچھے کام کرنے والے قوانین کو دریافت کر کے اور ہر شے جس مقصد کے لیے بنائی گئی ہے اسے تلاش کر کے ہی انسان یہاں یہ سب کچھ تعمیر کر سکا ہے۔ ورنہ ایک بے ضابطہ اور بے مقصد کھلونے میں اگر ایک پُتلے کی حیثیت سے اس کو رکھ دیا گیا ہو تا تو کسی سائنس اور کسی تہذیب و تمدّن کا تصوّر تک نہ کیا جا سکتا تھا۔ اب آخر یہ بات تمہاری عقل میں کیسے سماتی ہے کہ جس حکیم نے اِس حکمت اور مقصدیت کے ساتھ یہ دنیا بنائی ہے اور اس کے اندر تم جیسی ایک مخلوق کو اعلیٰ درجہ کی ذہنی و جسمانی طاقتیں دے کر، اختیارات دے کر، آزادیٔ انتخاب دے کر، اخلاق کی حِس دے کر اپنی دنیا کا بے شمار سروسامان تمہارے حوالے کیا ہے، اس نے تمہیں بے مقصد ہی پیدا کر دیا ہوگا؟ تم دنیا میں تعمیر و تخریب، اور نیکی و بدی، اور ظلم و عدل، اور راستی و ناراستی کے سارے ہنگامے برپا کر نے کے بعد بس یونہی مر کر مٹی میں مل جاؤ گے اور تمہارے کسی اچھے اور بُرے کام کا کوئی نتیجہ نہ ہوگا؟ تم اپنے ایک ایک عمل سے اپنی اور اپنے جیسے ہزاروں انسانوں کی زندگی پر اور دنیا کی بے شمار اشیاء پر بہت سے مفید یا مضر اثرات ڈال کر چلے جاؤ گے اور تمہارے مرتے ہی یہ سارا دفترِ عمل بس یونہی لپیٹ کر دریا بُرد کر دیا جائے گا؟

دوسری حقیقت  جو اس کائنات کے نظام  کا مطالعہ کرنے صاف نظر آتی ہے وہ یہ ہے کہ  یہاں کسی چیز کے لیے بھی ہمیشگی نہیں ہے۔ ہر چیز کے لیے عمر مقرر ہے جسے پہنچنے کے بعد وہ ختم ہو جاتی ہے۔ اور یہی معاملہ بحیثیت مجموعی پوری کائنات کا بھی ہے۔ یہاں جتنی طاقتیں کام کر رہی ہیں وہ سب محدود ہیں۔ ایک وقت تک ہی وہ کام کر رہی ہیں ، اور کسی وقت پر انہیں لامحالہ خرچ ہوجانا اور اس نظام کو ختم ہو جانا ہے۔ قدیم زمانے میں تو ولم کی کمی کے باعث اُن فلسفیوں اور سائنسدانوں کی بات کچھ چل بھی جاتی تھی جو دنیا کو ازلی و ابدی قرار دیتے تھے۔ مگر موجودہ سائنس نے عالَم کے حدوث و قِدَم کی اُس بحث میں ، جو ایک مدّتِ دراز سے دہریوں اور خداپرستوں کے درمیان چلی آرہی تھی، قریب قریب حتمی طور پر اپنا ووٹ خداپرستوں کے حق میں ڈال دیا ہے۔ اب دہریوں کے لیے عقل اور حکمت کا نام لے کر یہ دعویٰ کرنے کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہی ہے کہ دنیا ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گی اور قیامت کبھی نہ آئے گی۔ پرانی مادّہ پرستی کا سارا انحصار اس تخیل پر تھا کہ مادہ فنا نہیں ہو سکتا، صرف صورت بدلی جا سکتی ہے، مگر ہر تغیّر کے بعد مادّہ مادّہ ہی رہتاہے اور اس کی مقدار میں کوئی کمی و بیشی نہیں ہوتی۔ اس بنا پر یہ نتیجہ نکالا جاتا  تھا کہ اس عالَمِ مادّی کی نہ کوئی ابتدا ہے نہ انتہا۔ لیکن اب جوہری توانائی (Atomic Energy ) کے انکشافات نے اس پورے تخیل کی بساط اُلٹ کر رکھ دی ہے۔ اب یہ بات کھل گئی ہے کہ قوّت مادّے  میں تبدیل ہوتی ہے اور مادّہ پھر قوت میں تبدیل ہو جاتا ہے حتیٰ کہ نہ صورت باقی رہتی ہے نہ ہیولیٰ۔ اب حَرکیاتِ حرارت کے دوسرے قانون (Second Law of Thermo-Dynamics ) نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ یہ عالَم مادّی نہ ازلی  ہو سکتا ہے نہ ابدی۔ اس کو لازمًا ایک وقت شروع اور ایک وقت ختم ہونا ہی چاہیے۔ اس لیے سائنس  کی بنیاد پر اب قیامت کا انکار ممکن نہیں رہا ہے۔ اور ظاہر  بات ہے کہ جب سائنس ہتھیار ڈال دے تو فلسفہ کِن ٹانگوں پر اُٹھ کر قیامت کا انکار کرے گا؟