اس رکوع کو چھاپیں

سورة الروم حاشیہ نمبر۸

یہ آخرت کے حق میں تاریخی استدلال ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ آخرت کا انکار دنیا میں دوچار آدمیوں ہی نے تو نہیں کیا ہے۔ انسانی تاریخ کے دوران کثیر التعداد انسان اس مرض میں مبتلا ہوتے رہے ہیں۔ بلکہ پوری پوری قومیں ایسی گزری ہیں جنہوں نے یا تو اس کا انکار کیا ہے ، یا اس سے غافل ہو کر رہی ہیں، یا حیات بعد الموت کے متعلق ایے غلط عقیدے ایجاد کر لیے ہیں جن سے آخرت کا عقیدہ بے معنی ہو کر رہ جاتا ہے۔ پھر تاریخ کا مسلسل تجربہ یہ بتاتا ہے کہ انکارِ آخرت جس صور ت میں بھی کیا گیا ہے اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوا کہ لوگوں کے اخلاق بگڑے ، وہ اپنے آپ کو غیر ذمہ دار سمجھ  لر شتر  بے مہار بن گئے، انہوں ظلم و فساد اور فسق و فجور کی حد کر دی، اور اسی چیز کی بدولت قوموں پر قومیں تباہ ہوتی چلی گئیں۔ کیا ہزاروں سال کی تاریخ کا یہ تجربہ، جو پے در پے  انسانی نسلوں کو پیش آتا  رہا ہے، یہ ثابت نہیں کرتا کہ آخرت ایک حقیقت ہے جس کا انکار انسان کے لیے تباہ کن ہے؟ انسان کششِ ثقل کا اسی لیے تو قائل ہے کہ تجربے اور مشاہدے سے اس نے مادّی اشیاء کو ہمیشہ زمین کی طرف گرتے دیکھا ہے۔ انسان نے زہر کو زہر اسی لیے تو  مانا ہے کہ جس نے بھی  زہر کھایا وہ ہلاک ہوا۔ اسی طرح جب آخرت کا انکار ہمیشہ انسان کے لیے اخلاقی بگاڑ کاموجب ثابت ہوا ہے تو کیا یہ تجربہ یہ سبق دینے کے لیے کافی نہیں ہے کہ آخرت ایک حقیقت ہے اور اس کو نظر انداز کر کے دنیا میں زندگی بسر کرنا غلط ہے؟