اس رکوع کو چھاپیں

سورة لُقمٰن حاشیہ نمبر۳۳

بعض مفسرین نے اس کا مطلب یہ لیا ہے کہ ’’ تیز بھی نہ چل اور آہستہ بھی نہ چل، بلکہ میانہ روی اختیار کر ‘‘لیکن سیاقِ کلام سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہاں رفتار کی تیزی و سستی زیر بحث نہیں ہے ۔ آہستہ چلنا یا تیز چلنا اپنے اندر کوئی اخلاقی حسن و قبح نہیں رکھتا اور نہ اس کے لیے کوئی ضابطہ مقرر کیا جا سکتا ہے ۔ آدمی کو جلدی کا کوئی کام ہو تو تیز کیوں نہ چلے ۔ اور اگر وہ محض تفریحاً چل رہا ہو تو آخر آہستہ چلنے میں کیا قباحت ہے میانہ رو ی کا اگر کوئی معیار ہو بھی تو ہر حالت میں ہر شخص کے لیے اسے ایک قاعدۂ کلّیہ کیسے بنایا جا سکتا ہے ۔ دراصل جو چیز یہاں مقصود ہے وہ تو نفس کی اُس کیفیت کی اصلاح ہے جس کے اثر سے چال میں تبختر اور مسکینی کا ظہور ہوتا ہے ۔ بڑائی کا گھمنڈ اندر موجود ہو تو وہ لازماً ایک خاص طرز کی چال میں ڈھل کر ظاہر ہوتا ہے جسے دیکھ کر نہ صر یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ آدمی کسی گھمنڈ میں مبتلا ہے بلکہ چال کی شان یہ تک بتا دیتی ہے کہ کس گھمنڈ میں مبتلا ہے ۔ دولت ،اقتدار،حسن ،علم، طاقت اور ایسی ہی دوسری جتنی چیزیں بھی انسان کے اندر تکبُّر پیدا کرتی ہیں ان میں سے ہر ایک کا گھمنڈ اس کی چال کا ایک مخصوص ٹائپ پیدا کر دیتا ہے ۔ اس کے برعکس چال میں مسکینی کا ظہور بھی کسی نہ کسی مذموم نفسی کیفیت کے اثر سے ہوتا ہے ۔ کبھی انسان کے نفس کا مخفی تکبُّر ایک نمائشی تواضع اور دکھاوے کی درویشی و خدا رسیدگی کا روپ دھار  لیتا ہے اور یہ چیز اس کی چال میں نمایاں نظر آتی ہے ۔اور کبھی انسان واقعی دنیا اور اس کے حالات سے شکست کھا کر اور اپنی نگاہ میں آپ حقیر ہو کر مریل چال چلنے لگتا ہے ۔ لقمان کی نصیحت کا منشا یہ ہے کہ اپنے نفس کی ان کیفیات کو دور کرو اور ایک سیدھے سادھے معقول اور شریف آدمی کی سی چال چلو جس میں نہ کو ئی اینٹھ اور اکڑ ہو ، نہ مریل پن ، اور نہ ریا کارانہ زہد و انکسار۔
صحابۂ کرام کا ذوق اس معاملہ میں جیسا کچھ تھا اس کا اندازہ اس سے کیا جا سکتا ہے کہ حضرت عمرؓ نے ایک دفعہ ایک شخص کو سر جھکائے ہوئے چلتے دیکھا تو پکار فرمایا’’ سر اُٹھا کر چل، اسلام مریض نہیں ہے ‘‘۔ ایک اور شخص کو اُنہوں نے مریل چال چلتے دیکھا تو فرمایا ’’ ظالم ، ہمارے دین کو کیوں مارے ڈالتا ہے ۔‘‘ان دونوں واقعات سے معلوم ہُوا کہ حضرت عمرؓ کے نزدیک دینداری کا منشا ہر گز یہ نہیں تھا کہ آدمی بیماروں کی طرح پھونک پھونک کر قدم رکھے اور خواہ مخواہ مسکین بنا چلا جائے ۔ کسی مسلمان کو ایسی چال چلتے دیکھ کر انہیں خطرہ ہوتا تھا کہ یہ چال دوسروں کے سامنے اسلام کی غلط نمائندگی کرے گی اور خود مسلمانوں کے اندر افسردگی پیدا کر دے گی۔ ایسا ہی واقعہ حضرت عائشہؓ کو پیش آیا ۔ انہوں نے دیکھا کہ ایک صاحب بہت مضمحل سے بنے ہوئے چل رہے ہیں۔پوچھا انہیں کیا ہو گیا ؟ عرض کیا گیا کہ یہ قرّاء میں سے ہیں (یعنی قرآن پڑھنے پڑھانے والے اور تعلیم و عبادت میں مشغول رہنے والے )۔ اس پر حضرت عائشہؓ نے فرمایا ’’ عمر سید القراء تھے ، مگر ان کا حال یہ تھا کہ جب چلتے تو زور سے چلتے ، جب بولتے تو قوت کے ساتھ بولتے اور جب پیٹتے تو خوب پیٹتے تھے ‘‘ ۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، تفسیر سورۂ بنی اسرائیل ، حاشیہ ۴۳۔ تفسیر سورہ الفرقان ، حاشیہ ۷۹)۔