اس رکوع کو چھاپیں

سورة لُقمٰن حاشیہ نمبر۳۴

اس کا یہ منشا نہیں ہے کہ آدمی ہمیشہ آہستہ بولے اور کبھی زور سے بات نہ کرے ۔ بلکہ گدھے کی آواز سے تشبیہ دے کر واضح کر دیا گیا ہے کہ مقصود کس طرح کے لہجے اور کس طرح کی آواز میں بات کرنے سے روکنا ہے ۔لہجے اور آواز کی ایک پستی و بلندی اور سختی و نرمی تو وہ ہوتی ہے جو فطری اور حقیقی ضروریات کے لحاظ سے ہو ۔مثلاً قریب کے آدمی یا کم آدمیوں سے آپ مخاطب تو آہستہ بولیں گے ۔ دُور کے آدمی سے بولنا ہو یا بہت سے لوگوں سے خطاب کرنا ہو تو لامحالہ زور ہی سے بولنا ہو گا۔ ایسا ہی فرق لہجوں میں بھی موقع و محل کے لحاظ سے لازماً ہوتا ہے ۔ تعریف کا لہجہ مذمت کے لہجے سے اور اظہار خوشنود ی کا لہجہ اظہار ناراضی کے لہجے سے مختلف ہونا ہی چاہیے ۔ یہ چیز کسی درجہ میں بھی قابلِ اعتراض نہیں ہے ، نہ لقمان کی نصیحت کا مطلب یہ ہے کہ آدمی اس فرق کو مٹا کر بس ہمیشہ ایک ہی طرح نرم آواز اور پست لہجے میں بات کیا کرے ۔ قابلِ اعتراض جو چیز ہے وہ تکبر کا اظہار کرنے اور دھونس جمانے اور دوسرے کو ذلیل و مرعوب کرنے کے لیے گلا پھاڑنا اور گدھے کی سی آواز میں بولنا ہے ۔