اس رکوع کو چھاپیں

سورة لُقمٰن حاشیہ نمبر۴۵

یعنی اکثر لوگ یہ نہیں جانتے کہ اللہ کو خالقِ کائنات ماننے کے لازمی نتائج اور تقاضے کیا ہیں ، اور کونسی باتیں اس کی نقیض پڑتی ہیں ۔ جب ایک شخص یہ مانتا ہے کہ زمین اور آسمانوں کا خالق صرف اللہ ہے تو لازماً اس کو یہ بھی ماننا چاہیے کہ الٰہ اور رب بھی صرف اللہ ہی ہے ، عبادت اور طاعت و بندگی کا مستحق بھی تنہا وہی ہے ، تسبیح و تحمید بھی اس کے سوا کسی دوسرے کی نہیں کی جا سکتی، دعائیں بھی اس کے سوا کسی اور سے نہیں مانگی جا سکتیں ، اور اپنی مخلوق کے لیے شارع اور حاکم بھی اس کے سوا کوئی نہیں ہو سکتا ۔ خالق ایک ہو اور معبود دوسرا، یہ بالکل عقل کے خلاف ہے ، سراسر متضاد بات ہے جس کا قائل صرف وہی شخص ہو سکتا ہے جو جہالت میں پڑا ہوا ہو ۔ اسی طرح ایک ہستی کو خالق ماننا اور پھر دوسری ہستیوں میں سے کسی کو حاجت روا و مشکل کشا ٹھیرانا،کسی کے آگے سر نیاز جھکانا ،اور کسی کو حاکِم ذی اختیار اور مُطاعِ مطلق تسلیم کرنا، یہ سب بھی باہم متناقض باتیں ہیں جنہیں کوئی صاحب علم انسان قبول نہیں کر سکتا ۔