اس رکوع کو چھاپیں

سورة لُقمٰن حاشیہ نمبر٦۲

 الغرور (دھوکے باز ) سے مراد شیطان بھی ہو سکتا ہے ، کوئی انسان یا انسانوں کا کوئی گروہ بھی ہو سکتا ہے ، انسان کا اپنا نفس بھی ہو سکتا ہے ، اور کوئی دوسری چیز بھی ہو سکتی ہے ۔ کسی شخصِ خاص یا شئے خاص کا تعیّن کیے بغیر اس وسیع المعنی لفظ کو اس کی مطلق صورت میں رکھنے کی وہ یہ ہے کہ مختلف لوگوں کے لیے فریب خوردگی کے بنیادی اسباب مختلف ہوتے ہیں۔ جس شخص نے خاص طور پر جس ذریعہ سے بھی وہ اصل فریب کھایا ہو جس کے اثر سے اس کی زندگی کا رُخ صحیح سمت سے غلط سمت میں مڑ گیا وہی اس کے لیے الغرور ہے ۔
’’اللہ کے معاملے میں دھوکا دینے ‘‘کے الفاظ بھی بہت وسیع ہیں جن میں بے شمار مختلف قسم کے دھوکے آ جاتے ہیں ۔ کسی کو اس کا ’’ دھوکے باز ‘‘ یہ یقین دلاتا ہے کہ خدا سرے سے ہے ہی نہیں ۔ کسی کو یہ سمجھاتا ہے کہ خدا اس دنیا کو بنا کر الگ جا بیٹھا ہے اور اب یہ دُنیا بندوں کے حوالے ہے ۔ کسی کو اس غلط فہمی میں ڈالتا ہے کہ خدا کے کچھ پیارے ایسے ہیں جن کا تقرب حاصل کر لو تو جو کچھ بھی تم چاہو کرتے رہو، بخشش تمہاری یقینی ہے ۔ کسی کو اس دھوکے میں مبتلا کرتا ہے کہ خدا تو غفور الرحیم ہے ، تم گناہ کرتے چلے جاؤ، وہ بخشتا چلا جائے گا ۔ کسی کو جبر کا عقیدہ سمجھاتا ہے اور اس غلط فہمی میں ڈال دیتا ہے تم تو مجبور ہو، بدی کرتے ہو تو خدا تم سے کراتا ہے اور نیکی سے دور بھاگتے ہو تو خدا ہو تمہیں اس کی توفیق نہیں دیتا۔ اس طرح کے نہ معلوم کتنے دھوکے ہیں جو انسان خدا کے بارے میں کھا رہا ہے ، اور اگر تجزیہ کر کے دیکھا جائے تو آخر کا تمام گمراہیوں اور گناہوں اور جرائم کا بنیادی سبب یہی نکلتا ہے کہ انسان نے خدا کے بارے میں کوئی نہ کوئی دھوکا کھایا ہے تب ہی اس سے کسی اعتقادی ضلالت یا اخلاقی بے راہ روی کا صدور ہوا ہے ۔