اس رکوع کو چھاپیں

سورة السجدۃ حاشیہ نمبر١۴

یعنی پہلے اس نے براہ راست اپنے تخلیقی عمل(Direct Creation )     سے انسان کو پیدا کیا ،اور اس کے بعد خود اسی انسان کے اندر تناسل کی یہ طاقت رکھ دی کہ اس کے نطفہ سے ویسے ہی انسان پیدا ہوتے چلے جائیں ۔ ایک کمال یہ تھا کہ زمین کے مواد کو جمع کر کے ایک تخلیقی حکم سے اُس میں وہ زندگی اور وہ شعور و تعقل پیدا کر دیا جس سے انسان جیسی ایک حیرت انگیز مخلوق وجود میں آ گئی۔اور دوسرا کمال یہ ہے کہ آئندہ مزید انسانوں کی پیدائش کے لیے ایک ایسی عجیب مشینری خود انسانی ساخت کے اندر رکھ دی جس کی ترکیب اور کارگزاری کو دیکھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے ۔
یہ آیت قرآن مجید کی اُن آیات میں سے ہے جو انسان اوّل کی براہ راست تخلیق کی تصریح کرتی ہیں ۔ ڈارون کے زمانہ سے سائنس داں حضرات اس تصور پر بہت ناک بھوں چَڑھاتے ہیں اور بڑی حقارت کے ساتھ وہ اس کو ایک غیر سائنٹیفک نظریہ قرار دے کر گویا پھینک دیتے ہیں ۔ لیکن انسان کی نہ سہی، تمام انواعِ حیوانی کی نہ سہی، اوّلین جرثومۂ حیات کی براہِ راست تخلیق سے تو وہ کسی طرح پیچھا نہیں چھڑا سکتے ۔ اس تخلیق کو نہ مانا جائے تو پھر یہ انتہائی لغو بات ماننی پڑے گی کہ زندگی کی ابتدا محض ایک حادثہ کے طور پر ہوئی ہے ، حالاں کہ صرف ایک خُلیّہ (Cell )والے حیوان میں زندگی کی سادہ ترین صورت بھی اتنی پیچیدہ اور نازک حکمتوں سے لبریز ہے کہ اسے حادثہ کا نتیجہ قرار دینا اُس سے لاکھوں درجہ غیر سائنٹیفک بات ہے جتنا نظریۂ ارتقاء کے قائلین نظریۂ تخلیق کو ٹھیراتے ہیں ۔ اور اگر ایک دفعہ آدمی یہ مان لے کہ حیات کا پہلا جرثومہ براہِ راست تخلیق سے وجود میں آیا تھا ، پھر آخر یہی ماننے میں کیا قباحت ہے کہ ہر نوعِ حیوانی کا پہلا فرد خالق کے تخلیقی عمل سے پیدا ہوا ہے ، اور پھر اس نسل تناسُل (Procreation )کی مختلف صورتوں سے چلی ہے ۔ اس بات کو مان لینے سے وہ بہت سی گتھیاں حل ہو جاتی ہیں جو ڈارونیت کے علمبرداروں کی ساری سائنٹیفک شاعری کے باوجود ان کے نظریۂ ارتقاء میں غیر حل شدہ رہ گئی ہیں ۔(مزید تشریح کے لئے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد اوّل ، صفحات ۲۵۹۔۳۱۹۔۵۶۶۔جلد دوم، صفحات ۱۰۔۱۱۔۱۰۶۔۵۰۴۔ جلد سوّم ، صفحات ۲۰۱۔ ۲۶۹)۔