اس رکوع کو چھاپیں

سورة السجدۃ حاشیہ نمبر١٦

روح سے مراد محض وہ زندگی نہیں ہے جس کی بدولت ایک ذی حیات جسم کی مشین متحرک ہوتی ہے ، بلکہ اس سے مُراد وہ خاص جوہر ہے جو فکر و شعور اور عقل و تمیز اور فیصلہ و اختیار کا حامل ہوتا ہے ، جس کی بدولت انسان تمام دوسری مخلوقاتِ ارضی سے ممتاز ایک صاحبِ شخصیّت ہستی ، صاحبِ اَنا ہستی، اور حامِل خلافت ہستی بنتا ہے ۔اِس روح کو اللہ تعالیٰ نے اپنی روح یا تو اس معنی میں فرمایا ہے کہ وہ اُسی کی مِلک ہے اور اس کی ذاتِ پاک کی طرف اس کا انتساب اُسی طرح کا ہے جس طرح ایک چیز اپنے مالک کی طرف منسُوب ہو کر اُس کی چیز کہلاتی ۔ یا پھر اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کے اندر علم،فکر ، شعور، ارادہ،فیصلہ،اختیار اور ایسے ہی دوسرے جو اوصاف پیدا ہوئے ہیں وہ سب اللہ تعالیٰ کی صفات کے پر تُو ہیں ۔ ان کا سر چشمہ مادّے کی کوئی ترکیب نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہے ۔ اللہ کے علم سے اس کو علم ملا ہے ، اللہ کی حکمت سے اس کی دانائی ملی ہے ، اللہ کے اختیار سے اس کو اختیار ملا ہے ۔ یہ اوصاف کسی بے علم ،بے دانش اور بے اختیار ماخذ سے انسان کے اندر نہیں آئے ہیں ۔ (مزید تشریح کے لئے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جِلد دوّم ، صفحات ۵۰۴۔۵۰۵)۔