یہ ایک لطیف انداز بیان ہے ۔ روح پھونکنے سے پہلے انسان کا سارا ذکر صیغۂ غائب میں کیا جاتا رہا ۔’’اُس کی تخلیق کی‘‘ ، ’’ اُس کی نسل چلائی ‘‘،’’اُس کو نِک سُک سے درست کیا ‘‘،’’ اُس کے اندر روح پھونکی ‘‘۔ اس لیے اُس وقت تک وہ خطاب کے لائق نہ تھا ۔ پھر جب رُوح پھونک دی گئی تو اب اُس سے فرمایا جا رہا ہے کہ ’’ تم کو کان دیے ‘‘،’’ تم کو آنکھیں دیں ‘‘،’’ تم کو دِل دیے ‘‘ اس لیے کہ حامِل رُوح ہو جانے کے بعد ہی وہ اس قابل ہوا کہ اُسے مخاطب کیا جائے ۔ |